Saturday, December 31, 2011

پناہیں


 
پناہیں


سیمی شاہ کے پاس تو کوئی راستہ نہ تھا قاسم، کوئی اور پناہ گاہ ہی نہیں تھی محبت کے سوا۔ لیکن تم،تمہارے پاس تو کئی راستے ہیں قاسم،کئی پناگاہیں۔۔۔۔ تم تو اپنا پڑا ؤ کہیں بھی ڈال سکتے ہو۔۔۔۔
ہاں مریم،ہر شخص کی ذات کے اندر اور باہر کئی پناگاہیں ہوتی ہیں جن کے ذریعے وہ خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ باہر پناہ ڈھونڈتا ہے۔ جب اسے باہر پناہ نہیں ملتی تو وہ اندر راستہ ڈھونڈتا ہے۔ سیمی شاہ کے پاس جب باہر کے راستے بند ہو گئے تو وہ اپنے اندر بھی کوئی دروازہ نہیں ڈھونڈ پائی۔ شاید اسے اس بارے میں بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ بھنک تک نہیں تھی اسے اس بات کی۔اگر پتہ ہوتا اس بات کا کہ اس کی بند گلی بند نہیں تھی تو جانے کن بلندیوں پر پہنچ جاتی۔۔۔۔

پناہ کے دو درجے ہوتے ہیں پہلا جسم اور دوسرا روح۔ انسان پہلے جسم کو آسائش مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب چین پھر بھی نہیں بن پڑتا تو روح کی آسودگی کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ جب روح کو کوئی راستہ نظر نہیں آتا تو وہ کسمسانے لگتی ہے، ان دیواروں کو کھٹکھٹانے لگتی ہے؛حتیٰ کہ گھنٹیاں اس قدر شدید ہو جاتی ہیں کہ انسان کو دروازہ کھولنا ہی پڑتا ہے،جسم سے آزادی کا،روح کی معرفت کا یا پھر کوئی اور۔۔۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے پناہ گاہ اتنی ہی اہم ہوتی ہے انسان کے لیے؟
ہاں! پناہوں کے بل بوتے پر ہی تو انسان زندہ رہتا ہے مریم۔ ہم سب انسان زندہ رہنے کے لیے پناہیں ڈھونڈتے ہیں۔ معاشی پناہیں،معاشرتی پناہیں،جزباتی پناہیں؛ یوں سمجھ لو کہ سانس لینے کے بعد جو چیز انسان کے لیے اہم ہوتی ہے وہ یہ پناہ گاہ ہے۔
تم یہ سامنے لڑکی کو دیکھ رہی ہو گارڈن میں،جو پوری طرح کینوس میں رنگ بھرنے میں منہمک ہے۔ یہ آرٹ اس کی پناہ گاہ ہی تو ہے جو اس نے اپنی ذات کے لیے چنی ہے۔۔۔

ایک عام آدمی،لے مین، شادی میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ اس کے پاس زندگی گزارنے کے لیے کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا۔ وہ یونہی بس چلتا چلا جاتا ہے۔ اس کی زندگی کا محور شادی ہی ہوتا ہے۔ پہلے پڑھائی کرو،خود کو اس قابل بنا ؤ ، اچھی نوکرِی حاصل کرو اور پھر شادی کر لو۔ اور اس کے بعد ساری زندگی اس کے بعد کے اثرات سے نمٹتے ہو ئے گزار دو یعنی بچے پالو۔ انہیں بڑا کرو اور ان کی بہتر پرورش کے لیے تگ و دو کرو۔

یہ سب کیا ہے؟ پناہ گاہ ہی تو ہے۔ کبھی نہ ختم ہونے والے سائیکل میں داخل ہونا۔ جواز دینا زندگی کو۔ خود کو زندہ رہنےکے لیے محرک دینا! یہ سب ایک ذریعہ ہے وقت گزاری کا۔ یا یوں کہو کہ زندگی گزاری کا۔۔۔۔۔۔
بہت سے لوگ طوائف کے پاس اس لیے نہیں جاتے کہ انہیں جنس کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ وہ جزباتی طور پر تنہا ہوتے ہیں۔ ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہوتی لیکن ان کی انتہائی مصروف زندگی میں ان کے اپنے آپ کو بانٹنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس لیے انہیں جزباتی پناہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
کچھ لوگوں کے لیے وقت گزاری اہم ہوتی ہے۔ کچھ دن پہلے میں قلفی بیچنے والے ایک بوڑھے بابا جی سے ملا۔ وہ انتہائی ضعیف تھے لیکن پھر بھی قلفیاں بیچا کرتے تھے۔ میں نے کہا بابا جی آپ کی کوئی اولاد نہیں ہے؟آپ کیوں یہ تکلیف کرتے ہیں۔ تو کہنے لگے میرے چار بیٹے ہیں۔ ماشااللہ چاروں کماتے ہیں۔اپنا مکان ہے۔ تو میں نے کہا پھر آپ یہ محنت کیوں کرتے ہیں جبکہ آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے اس کی؟ وہ کہنے لگے وقت نہیں گزرتا گھر میں۔دل نہیں لگتا۔ اور جب  مجھے زندگی رکی ہوئی محسوس ہوتی ہے تو پھر میں قلفیاں بیچنے لگتا ہوں۔
تو ان بابا جی نے پناہ گاہ کے طور پر وہ راستہ اپنایا تھا
کل میں ٹی وی پر ایک ضعیف شخص کو دیکھ رہا تھا۔ جو کہ کئ سال سے کورٹ کچہریوں کے چکر لگا رہا تھا۔ جائیداد کا تنازعہ تھا۔ وہ شخص روز صبح قصور سے آتا اور شام تک بیٹھا رہتا پیشی اور فیصلے کے انتظار میں۔ کل جب آٹھ سال بعد مقدمے کا فیصلہ ہوا اور وہ بھی اس کے حق میں تو وہ خوش نہیں تھا۔ پتا ہے کیوں؟ اس کا کہنا تھا کہ وہ روز صبح آتا اور شام کو گھر واپس جاتا تو سارا وقت اسی میں گزر جاتا اور دل بہل جاتا تھا۔ اب اس کے پاس کوئی مصروفیت نہیں ہے۔ اب وہ اپنا وقت کیسے گزارے گا! سو یہ بھی پناہ گاہ تھی۔
  تم دیکھو محرک کتنا اہم ہوتا ہے۔ ہم جواز کے بل بوتے پر آگے بڑھتے ہیں۔ پناہیں ہمارا سہارا ہوتی ہیں۔ اور یہ پناہیں بھی دو طرح کی ہوتی ہیں۔ اہک اندرونی اور ایک بیرونی۔ یہ جو سیمی شاہ اور اس آرٹسٹ لڑکی کی پناہ گاہ تھی نہ ، یہ اندرونی تھی اور ان بوڑھے بابا جی اور اس ضعیف شخص کی بیرونی۔ جب روح تڑپتی ہے تو اندرونی پناہ گاہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور جب جسم بے چین ہوتا ہے تو بیرونی پناہ گاہ چاہیے ہوتی ہے۔۔۔۔ہر ایک کی اپنی اپنی قسمت ہوتی ہے یا پھر ضرورت۔۔۔۔کچھ لوگ اندر سے باہر کی طرف سفر کرتے ہیں اور کچھ باہر سے اندر کی طرف۔۔۔۔
شراب اور نشہ۔۔۔ یہ بھی تو پناہ گاہیں ہی ہیں؛ عارضی پناہ گاہیں؛ جسم سی دماغ کا رابطہ توڑنے کے لیے؛ خود کو تھوڑی دیر کے لیے آزاد کرنے کےلیے؛ان سوچ،عقل اور اصولوں کے دائرے سے نکلنے کے لیے۔۔۔
کچھ لوگ پیسے، سٹیٹس میں بھی تو پناہ ڈھونڈتے ہیں قاسم۔ کیا انہیں واقعی اس میں پناہ مل جاتی ہے؟
ہاہا،ہنستے ہوئے، پناہ تو کسی بھی چیز میں مل جاتی ہے مریم۔ لیکن شاید تم یہاں پناہ اور سکون کو گڈمڈ کر رہی ہو۔ دونوں میں بہت فرق ہے مریم بی بی۔ لازم نہیں کہ ہر وہ شے جو ہمیں پناہ دے ہماری روح کو اطمینان بھی دے اور سکون بھی مہیا کرے۔ پیسا بنانے کی مشین بننے سے وقت تو گزارا جا سکتا ہے، زندگی کو جواز تو دیا جا سکتا ہے، معاشرے میں مقام تو حاصل کیا جا سکتا ہے، اس سے ہم اپنی معاشرتی زندگی کے ٹمٹاتے چراغ کی لو کو تو روشنی دے سکتے ہیں لیکن سکون کی میں گارنٹی نہیں دے سکتا۔
تم دونوں یہاں بیٹھے ہو۔ سر ناصر کب سے تمہارا انتظار کر رہے۔ کیا کلاس لینے کا ارادہ نہیں ہے؟ ایک لڑکی نے پیچھے سے آواز لگائی۔
ارے۔۔۔وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ چلو۔۔۔۔اور وہ تینوں کلاس روم کی جانب چل پڑے۔


  

Friday, November 4, 2011

خالی



میں اپنی ذات کے سارے چیک کیش کروا چکا تھا اور اب خالی ہاتھ ریت کے صحرا میں بیٹھا تھا۔ کچھ خالی رہ جانے کا غم تھا،کچھ تنہائی کا خوف اور کچھ اپنے کھو کھلے پن کی اذیت۔۔۔۔ ابا جی ہمیشہ کہتے تھے کہ نہ پتر اتنا زیادہ بولا نہ کر،نہیں تو خالی رہ جاَئے گا۔ تو تو اپنا سارا کچھ ہی کیش کروانے پے تلا ہوتا ہے کچھ اپنے لیے بھی رکھا کر۔ پر مجھے ابا جی کی یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی۔ میں کہتا لو بھلا یہ کیا بات ہوِئی۔ بولنے سے بھی بھلا کوئی خالی ہوا ہے اور کسی کا کچھ گیا ہے؟ آپ کی عمر ہوگئی ہے آپ کو کوئی بات کرنے کرنے والا نہیں ملتا نہ اس لیے مجھے بھی منع کرتے ہو۔ میں فطرتاً کھلی طبیعت ک مالک تھا اور بڑھ چڑھ کے بولنے والوں میں سے تھا۔ کہاں کیا ہوا،کیا نئی خبر ہے مجھے سب معلوم ہوتا۔یہاں تک تو بات ٹھیک تھی۔لیکن ابا جی کے ماتھے پہ  شکن تب آتی جب میں فوراً ہی وہ بات اپنے محلے والوں یا اپنے دوستوں کے ہاں شیئر کرنے چلا جاتا۔ اور وہ فوراً کہتے اوئے کجھ اپنے کول وی رکھیا کر اور میں بات سنی ان سنے کرتے ہوئے نکل جاتا۔

فطرتاً فنکار تھا یا نہیں،پتا نہیں۔ ہاں لیکن ثنا کی دلکش شخصیت مجھے اس دائرے میں دھکیلنے کا سبب ضرور بنی۔ وہ این سی اے کی طالبہ تھی اور ایک مکمل فنکار۔ مکمل فنکار اس لحاظ سے کہ اس کی ذات کے گرد حساسیت کے وہ دائرے تھے کہ جن کے جال میں فن کے تانے بانے نشوونما پاتے ہیں۔ اور پھر وہ نہایت خوبصورتی سے اس بات کا اپنے فن میں اظہا ر کرتی۔ میں نے بھی اس کے قریب ہونے کی خاطر فن کا راستہ اپنایا۔ لیکن بعد میں اس کے کٹھن پن کا احساس ہوا۔ حسوں کو جگانا اور ان سے کام لینا ایک مشکل کام تھا۔ کسی بھی شے کو کینوس میں اتارنے سے پہلے فنکار کو اسے اپنے اندر بھرنا ہوتا ہے۔ اور پھر آہستہ آہستہ نہایت احتیاط سے وہ اسے اپنے اندر سے باہر نکالتا ہے اور کینوس کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ یعنی پہلے خود کو بھرنا ہوتا ہے اور پھر خالی کرنا۔۔۔۔ جزبات،احساسات ہر شے کی تخلیق سے پہلے عروج پر ہوتے ہیں اورفنکار ایسے محسوس کرتا ہے جیسے اس کے دل پر بہت بڑا بوجھ ہو اور ہر بار تخلیق کے بعد ایک خالی پن کا احساس ہوتا ہے۔ اور پھر ایک نئ شے کی طلب اور نیا بوجھ۔۔۔۔  بیچارا آرٹسٹ اسی کشمکش میں پوری زندگی گزار دیتا ہے۔

 سفر طلب اور حصول کے درمیانی فاصلے کو کم کرنے کے دوران ہوتا ہے۔ نہ طلب سے پہلے کچھ ہوتا ہے اور نہ شے کے حصول کے بعد۔۔۔۔ اور اس سفر کی مشق کے لیے استعمال ہونے والا انسان ہے۔۔۔۔ میں ابا جی کی باتوں کو کبھی سمجھ نہیں پایا تھا لیکن اب سب کچھ لٹانے کے بعد وہ باتیں کچھ کچھ سمجھ میں آتی ہیں۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے زیادہ بولنے والا بندہ خالی رہ جاتا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہتے تھے کہ ادھر ڈالا برتن میں اور ادھر انڈیل دیا انسان کے پاس کیا بچا بھلا اور پھر خالی برتن ٹین کے ڈبے کی طرح کھڑکتا ہے۔ بچپن میں مجھے کھلونے اکٹھے کرنے کا بہت شوق تھا۔ ادھر کوئی نیا کھلونا دیکھا، حصول کی خواہش پیدا ہوِئی اور ادھر اس کو حاصل کرنے کے طریقے۔۔۔۔لیکن حاصل کرنے کے بعد اس کھلونے کے لیے وہ پہلے جیسی خواہش اور رغبت نہ رہتی اور چند دن بعد دل اچاٹ ہو جاتا اور پھر کسی نئے کھلونے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا۔ پھر ایک واقعہ یوں ہوا کہ مجھے خواہش کے پورا ہونے سے خوف آنے لگا۔ ہوا یوں کہ مجھے ایک کھلونا موٹر سا ئیکل بہت پسند آگئی اور میرے دل میں اس کو حاصل کرنے کی شدت کی خواہش پیدا ہوِئی لیکن تھی وہ کچھ مہنگی۔ ابا جی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اچھا سالگرہ والے دن لے دوں گا۔ سو تب سے میں سالگرہ والے دن کا انتظار کرنے لگا۔ اور روز سوچتا کہ اگر وہ موٹر سائیکل میرے پاس ہوتی تو کیسی چلتی۔ پھر سالگرہ والا دن بھی آیا اور مجھے موٹر سائیکل بھی مل گئی، چلائی بھی اور خوشی بھی ہوِئی لیکن جلد ہی اس سے رغبت بھی ختم ہو گئی۔ سارا سفر تو خواہش اور حصول تک کا تھا! اور تب سے مجھے خواہش کے پورا ہونے سے خوف آنے لگا۔

محبت کے معاملے بھی کچھ ایسا بدقسمت واقع نہیں ہوا تھا۔جسے چاہا شدت سے چاہا اور حاصل بھی کر لیا۔ ثنا ایک نہایت اچھی آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ایک اچھی بیوی بھی ثابت ہوئی تھی۔ لیکن پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ محبت میں وہ شدت نہیں رہی اور وقت گزرنے کے ساتھ خواہش بھی ماند پڑنے لگی۔ حتٰی کہ بات غلط فہمیوں سے بڑھ کر علیحدگی تک جا پہنچی۔ میں نے زیادہ کوشش بھی نہیں کی صفائی دینے کی اور اسے آزاد کر دیا۔ محبت کا چیک بھی کیش ہونے کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا!
شاید بات یہاں بھی صرف سفر کی ہی تھی!

میں اپنی ذات کو بھی یہاں پوری طرح کیش کرا چکا تھا اور اب ایک عام ناصر کمال سے ایک مشہور آرٹسٹ ناصر کمال بن چکا تھا۔ جو دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے فن کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ وہ جو ہر بات کو،ہر احساس کو اپنے فن کے زریعے بیان کرنے میں ماہر تھا۔ ہر پینٹنگ میں ایک انوکھا احساس اور تجسس بھرا ہوتا اور نہایت مہنگے داموں بکتی۔ لیکن ایک اصلی فنکار کو اپنے فن پارے سے انصاف کرنے کے لیے اور ایک خاص احساس کو اجاگر کرنے اور لوگوں تک پہنچانے کے لیے کن کن ریاضتوں  سے گزرنا پڑتا ہے وہ ایک فنکار ہی بہتر جا نتا ہے۔ میں ہر بات کو جانتا،سمجھتا،پرکھتا،اسے اپنے اندر سموتا اور کینوس پر اتار دیتا۔ بعض اوقات تو یہ بہت جلد ہو جاتا اور بعض اقات کسی شے کی روح تک جانے کے لیے مہینے لگ جاتے۔ ہر آٰغاز بھر پور ہوتا اور ہر انجام کے بعد وہی پرانا خالی پن۔۔۔۔۔۔ آج جو میں شہرت کی بلندیوں پر تھا مال و دولت سے مالا مال تھا  لیکن پھر بھی خالی تھا۔ جذبات،احساسات اور ریاضت فن پاروں میں بھر چکا تھا اور اس کے زریعے خود کو کیش کرا چکا تھا!               

Thursday, November 3, 2011

میں اور میں


میں اور میں

اس میں اور میں کا کھیل بڑا پرانا ہے سائرہ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کونسا میں ہوں۔ وہ جو میرے اندر ہے یا وہ جو اس دنیا کہ ساتھ رہ رہا ہے۔ وہ جو تمہارے سامنے کھڑا ہے یا وہ جو تمہارے سامنے کھڑے ہونے والے کے اندر پنپ رہا ہے۔ وہ جو تمہیں بڑا مطمئن نظر آتا ہے یا وہ جو ہر لمحے بےچین رہتا ہے۔ وہ جو دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہے یا وہ جو دنیا سے بھاگ رہا ہے۔

میں ایک میں اور میں میں بٹا ہوا انسان ہوں سائرہ۔۔۔۔۔ تم مجھ سے یوں محبت نہ کرو۔۔۔۔۔

میں تب تک ایک تھا جب تک ایک بچہ تھا۔ زہن میں اٹھنے والے معصومانہ سوالات چند لمحوں میں اٹھتے اور پھر کسی اور شوق کی نظر ہو جاتے۔ لیکن کانشیئسنیس کے بیدار ہوتے ہی میرِی ذات کئی ٹکڑوں میں بٹ گئ۔اتنے ٹکڑے کہ مجھے خود بھی اندازہ نہیں۔ اور تب سے اب تک میں خود کو جوڑنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہوں۔

یہاں بے پناہ تنوع ہے اور ہر شے دوئی میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر شے دوسری کو سہارا دیئے ہوے ہے۔ ایک کی موت دوسری کے وجود کا سبب ہے۔ کوئی ایک تنہا ایگزِسٹ ہی نہیں کر سکتی۔ اور یہ تنوع ہی میرے پاگل پن کا باعث ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ تم سب آخر کسی چیز کے ایک ہی رخ کو کیوں قبول کرتے ہو جبکہ اس کے دوسرے رخ کے بغیر تو اس کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ تم کہتی ہو دنیا میں اتنے برے انسان کیوں ہیں؟ میں کہتا ہوں اگر برے ہیں تو اچھے ہیں نہ۔۔۔۔دونوں کا وجود ایک دوسرے سے ہے۔ برا ختم ہو گا تو اچھا بھی ختم ہو جائے گا۔۔۔۔۔تم کہتی ہو مجھے سردیاں بہت پسند ہیں۔لیکن گرمی کے بغیر سردی کا تصور کیا ہو گا؟۔۔۔۔۔

میں دو پولز کے درمیان بٹا ہوا انسان ہوں۔ جو سرپٹ ایک پول سے دوسرے پول کی طرف بھاگتا ہے اور پھر دوسرے سے پہلے کی طرف آتا ہے۔ میں نہ فطرتاً نیک انسان ہوں نہ بد۔۔۔۔جب نیکی کے کنویں میں رہتے ہوئے کچھ وقت گزر جائے تو پھر جی متلانے لگتا ہے۔ اور دوسری طرف جب برائی کا احساس زہن پر بوجھ بننے لگے تو پھر واپس آتا ہوں پہلی طرف۔۔۔۔۔پتہ نہیں تم مجھے کیا سمجھتی ہو۔سمجھتی بھی ہو یا نہیں۔ بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ شائد میں تمہا ری توقعات پر پورا نہ اتر پاؤں کہ مجھے تو خود سے ہی فرصت نہیں۔۔۔۔۔اور پتہ نہیں مجھے ان ٹکڑوں کو اکھٹا کرنے اور اس زندگی کی تصویر کو جوڑنے میں کتنا وقت لگے۔۔۔۔۔۔۔

لیکن میں تمہارا ساتھ تو دے سکتی ہوں اس تصویر کو جوڑنے میں وقار۔۔۔۔۔اور کچھ نہیں تو چند پل ساتھ تو گزارے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔

 میں تمہیں روکوں گا نہیں۔۔۔۔۔۔میں تو بس یہ چاہتا تھا کہ تمہیں میرے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ رہے۔۔۔۔۔  

Saturday, September 24, 2011

سپردگی



کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ اندھیرے کسی دن مجھے اپنے ساتھ بہا لے جائیں گے۔ میں باہر کی روشنیوں سے بچتا پھرتا ہوں اور اندر مجھے یہ اندھیرے سانس نہیں لینے دیتے۔ تم،تم بھی تو اسی دنیا میں رہتی ہو۔ تم کیسے رہ لیتی ہو بھلا؟ کیا تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا؟ پہلے بہت فرق پڑتا تھا صاحب جی جب میں نے نیا نیا گھروں میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ہم چار بہنیں تھیں۔ میری ماں کبھی نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹیاں بھی اس کی طرح لوگوں کے گھروں میں کام کریں۔ وہ تو چاہتی تھی کہ ہم سب کی اچھے گھروں میں شادیاں ہو جائیں۔ پر آہستہ آہستہ وہ زیادہ کام کرنے کی وجہ سے بیمار پڑنے لگی اور گھر چھوٹنے لگے۔ خرچہ پورا نہیں ہوتا تھا۔ جب دال روٹی کے بھی لالے پڑنے لگے تو مجھے بھی ساتھ میں کام کرنا پڑا۔ اس پاپی پیٹ کی خاطر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔

بہت دنیا دیکھی ھے جی میں نے۔ یہ بڑے گھروں میں بسنے والے اپنے مکانوں میں سجاوٹ کے لیے لاکھوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں۔ رات کے وقت روشنیوں کا وہ انتظام ہوتا ہے کہ ان کے گھر رات کے وقت دن کی روشنی سے زیادہ چمکنے لگتے ہیں۔ پر صاحب جی ان کے دلوں میں اندھیرے ہی رہتے ہیں۔ صفائی بہت ہوتی ہے پر دل کی نہیں۔  سجاوٹ ہوتی ہے پر ذات کھنڈر رہتی ہے۔ کپڑوں کا بہت خیال رکھا جاتا ہے اور اس میں خود کو سب سے تہذیب یافتہ دکھایا جاتا ہے۔ لیکن ان کی درندگی اس بیچاری غریب سے چھپ نہیں سکتی جو بیچاری دو وقت کی روٹی کی خاطر ان کے گھر جاتی ہے اور ان کی ہوس خوردہ نگاہوں سے خود کو بچا نہیں سکتی اور اس کا ثابت گھر پہنچنا محال ہوتا ہے۔ ایک عورت کے لیے یہاں سب درندے ہیں اور ایک غریب کے لیے اس کا استحصال کرنے والے۔ یہاں سب کے اپنے اپنے گھاؤ ہیں جی۔۔۔۔۔۔

میرا اور آپ کا دکھ اس لحاظ سے ایک جیسا ہے کہ ہم دونوں گھاؤ زدہ ہیں۔۔۔۔۔اور پھر چوٹ اندر کی ہو یا باہر کی،چوٹ تو چوٹ ہوتی ہے نہ۔ میں باہر کی دنیا سے تلملا اٹھتی ہوں اور آپ اندر سے۔۔۔۔۔

کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے نجمہ، کہ جیسے میری طرف کئی لمبے لمبے اجسام کے سائے چلے آرہے ہوں اور وہ زبردستی مجھےاپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ مجھے اندھے سمندر میں دکھا دے دیں گے۔ کیا یہ صرف دماغ کا دھوکہ تو نہیں؟ کیا میں تمہیں زہنی بیمار لگتا ہوں؟ کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا کہ یہ تہزیب یافتہ روشنیاں صرف غریبوں کو گھائل کرنے کے لیے بنائی گئ ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب اندھے،بہرے،بے حس ہو چکے۔ میں،میں کچھ کرتا کیوں نہیں؟ آخر سکون کہاں ہے؟روشنی کہاں ہے؟ مجھے ڈر لگتا ہے خود سے کہ کہیں میری ذات ہی مجھ پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ میں خوفزدہ ہوں اس سے کہ کہیں میں بھی مسلسل اندھیرے میں رہنے کی وجہ سے اپنی بینائی نہ کھو بیٹھوں،کہیں میں بھی باقی سب کی طرح اندھا نہ ہو جاؤں۔۔۔۔۔۔۔

دیکھو صاحب جی زیادہ نہ سوچا کرو،اور پھر سوکھی سوچ تو انسان کو پریشانیوں میں ہی مبتلا کرتی ہے۔ بندہ تھوڑا تھوڑا اپنی استطاعت کے مطابق کام کرتا رہے تو ٹھیک رہتا ہے۔ کام نہ کرے تو بھی بے ایمانی ہوئی خدا کی دی ہو ئی جان میں، اور زیادہ کرنے کی سوچے تو بھی پورا نہیں پڑتا۔ میں بھی بڑی پریشان رہتی تھی،بات بات پر کڑھتی تھی۔ مجھے بھی دنیا بڑی کھلتی تھی۔ میں بھی اس زندگی سے بڑی تنگ تھی۔ پھر ایک دن مجھ پر بھید کھلا۔۔۔۔۔۔مسئلہ یہ تھا کہ میں نے خود کو پریشانیوں کے سپرد کیا ہوا تھا،اس دنیا کے سپرد،اس سوچ کے سپرد جو مجھے پریشان کرتی تھی۔ پھر میں نے خود کو اپنے اور اس دنیا کے بنانے والے کے سپرد کر دیا۔ اپنی پریشانیوں کو،اپنی سوچ کو،اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر دیا اور میرے سارے مسئلے حل ہو گئے۔ آپ بھی خود کو اپنے مالک کے سپرد کر دو تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔










Sunday, September 18, 2011

راستہ



دیکھو مائرہ سمجھنے کی کوشش کرو زندگی کی یہی حقیقت ھے۔ ہر شے چاہے وہ کتنی ھی دلفریب،پرکشش اور چارمنگ کیوں نہ ھو ایک دن اس کی چمک ماند پڑ جاتی ھے اور وہ پھیکی لگنے لگتی ھے۔ محبت کی خواہش بھی ھمیشہ نہیں رہنے والی۔۔۔۔

لیکن اس محبت کا کیا فراز؟ اس رشتے کا کیا؟ تم سب کچھ اپنی اس فلاسفی کی  نذر کر دینا چاہتے ھو؟

یہ کوئی فلاسفی نہیں ہے مائرہ۔ بلکہ ایک حقیقت ھے۔وہ حقیقت جس کا ادراک مجھے پہلے ھو گیا ھے اورلوگوں کو بعد میں ہوتا ہے۔ تمہیں بھی اس بات کا ادراک کرنا ہوگا۔ دیکھو ہر انسان میں بیک وقت کئی راستے  ھوتے ہیں۔ لیکن اسے اس بات کا اندازہ نہیں ہوپاتا کیونکہ وہ ایک وقت میں صرف ایک راستے پر فوکس کیے ہوتا ہے اور پھر جب ا سے انر سگنل ملتا ہے کہ بس بہت ہو گیا اور اب اس راستے پر چلا جائے تو وہ پھر سرپٹ دوڑتا ھے،اس اندرونی چابک کے زیر اثر،اس نئے راستے کے پیچھے۔۔۔۔اس چابک کی ضربیں اس قدر شدید ہوتی ہیں کہ اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا سوائے اپنے اس راستے کے۔۔۔۔۔۔۔

میرے اندر بھی کئی راستے ہیں مائرہ،کئی گھمن گھیریاں ہیں،کئی بھنور ہیں ۔ اور میں جانتا ہوں میں ایک راستہ زیادہ دیر تک اختیار نہیں کرسکتا۔یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ مجھے ان کئی راستوں پر چلتے ہوئے خود تک پہنچنا ہے۔ اور پھر محبت تو ایک خواہش، ایک جذبے کا نام ہے۔ کسی خواہش کو ساتھ رکھ کے تو انسان خوش رہ سکتا ہے۔لیکن اسی خواہش کے حصول کے بعد اس کا قیدی بن کر نہیں۔


میں محبت کا قیدی نہیں بن سکتا۔ مجھے تم سے محبت ہے۔ ھمیشہ رہے گی۔ لیکن میں اس میں قید نہیں ھو سکتا۔یہ میری فطرت میں نہیں ہے۔۔۔۔۔

یہ تغیر پیشہ انسان جب کسی خواہش کا اظہار کرتا ھے تو سمجھتا ہے کہ بس کسی طرح اب یہ چیزحاصل ہو جائے تو وہ ہمیشہ خوش رہے گا۔لیکن اس خواہش کے حصول کے بعد آہستہ آہستہ وہ کشش اور رغبت ماند پڑ جاتی ہے۔ اور پھر وہ کسی نئی خواہش کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ھے۔ کسی شے کا حصول انسان کو مستقل طورپرخوش نہیں رکھ سکتا۔۔۔۔۔۔محبت بھی انسان کو مستقل طور پر خوش نہیں رکھ سکتی۔ جب ایک خواہش پوری ہو جائے تو دوسری ضرورتیں سر پکڑنے لگتی ہیں۔ یہ کوئی ڈیسٹینیشن پوائنٹ نہیں ہے کہ جس پر آکر رکا جائے۔کسی شخص کو حاصل کر لینے کا مطلب محبت کا ابدی حصول نہیں ہوتا۔ دیکھو، ہر ایک کی ذات کے اندر کئی راستے ہوتے ہیں۔جو کہ اسے قدرت کی طرف سے ملے ہوتے ہیں چلنے کے لیے۔۔۔۔وہ چاہے بھی تو اپنے اندر کی آوازوں کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔۔۔۔اور مجھے بھی اسی راستے پر چلنا ہوگا۔۔۔۔۔۔            

اچھا چلتا ہوں اب۔۔۔۔اپنا خیال رکھنا۔اور چاہو تو مجھے خود غرض کہ لینا یا چاہو تو کچھ اور،چاہو تو اس رشتے کو ماضی کی کتاب کا ایک ورق سمجھ کر بند کر دینا یا چاہو تو حال کی ایک کڑی سمجھ کر زندہ رکھنا۔۔۔۔۔                           

Thursday, February 3, 2011

ہماری عادت


ہم عجیب لوگ ھیں۔حاجت کے پورا ھونے کے لیے منتیں مانگتے ھیں،چڑھاوے چڑھاتے ھیں۔فریاد کرتےھیں اس کے بندوں سے۔ لیکن اس سے نہیں۔ ھم اس مقصد کے لیے کئی میلوں کا فاصلہ طے کرتے ھیں۔ لیکن وہ جو ہمارے پاس کھڑا ھوتا ھے اس کے بارے میں کبھی سوچتے ھی نہیں! ھمیں اس کے بندوں کے پاس جا کر کھڑے ھونے اور اس سے مانگنے  کا سلیقہ تو خُوب آتا ھے لیکن اس کے پاس کھڑے ھونے کا نہیں۔ ھمیں مزاروں پر تو پتا ھوتا ھے کہ ھم کس کے پاس کھڑے ہیں لیکن اس کے پاس جاتے ھوئے اور اس کی عبادت کرتے ھوئے نہیں پتا ھوتا کہ ھم کس ہستی کے آگے کھڑے ھیں۔ ھم تو صرف عادتا“ عبادت کر رہے ھوتے ھیں۔ اور اس وقت ھمیں بس یہ ھوتا ھے کہ جلدی جلدی نماز ختم ھو۔ ھم قرآن پڑھتے ھیں ثواب لینے کے لیے نا کہ حکم جاننے اور اس پر عمل کرنے کے لیے۔ 

ھمیں اس کے بندوں کے پاس جاتے ھوئے تو یقین ہوتا ھے۔لیکن اس کے اوپر بھروسہ نہیں ھوتا۔ اس نے تو کتنی بار کہا ھے مجھ سے مانگو میں دوں گا۔لیکن ھمیں اس کے بندوں پر تو بھروسہ ھے اس پر نہیں۔ جب آپ کو اس پر یقین ہی نیہں ھے تو پھر آپ کی دعا کیسے پوری ھو گی۔ اور پھر آپ کہتے ھو جی ھمارے دعائیں پوری نہیں ھوتیں۔ او پہلے یقین تو کرو۔ گلے کرنے تم کو خوب آتے ھیں۔ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں "میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ھو تا ہوں" تو جیسا گمان ھو گا و یسا ھی ردعمل۔۔۔پہلے اس کے پاس جا کر تو دیکھو، اس پر بھروسہ کر کے تو دیکھو، اس سے مانگ کر تو دیکھو پھر کہیں اور جانا۔۔۔۔۔

دینے کی سائنس



دینے کی سائنس



قدرت کا اصول ھے "دینے والی چیز آپ کے پاس واپس لوٹ آتی ھے کئی گنا زیادہ ہو کر" ہمیں صرف صدقہ یا خیرات کے متعلق تو بتا دیا گیا ھے کہ تم اللہ کی راہ میں دو تو وہ تمیں دس گنا زیادہ کر کے واپس کرے گا۔لیکن میرے ادراک کے مطابق یہ معاملہ دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ بھی ھے ۔مثلا جب ہم کسی کی مدد کرتے ھیں اور اسے خو شی دیتے ھیں تو وہ خوشی کئی گنا زیادہ ھو کرواپس لوٹ آتی ھے۔ اور آپ جسمانی طور پر خوش نہیں ھوتے بلکہ آپ کی روح خوشی محسوس کرتی ھے۔ تو اس طرح آپ دوسرے ک مدد سے زیادہ اپنی مدد کرتے ھیں! 

جب آپ لوگوں سے بے لوث محبت کرتے ھیں جواب میں کچھ توقع کئے بغیر۔۔۔۔۔تو ان لوگوں کا خیال رکھنے اور انہیں آسانی دینے سے آپ اپنی روح کا خیال کرتے ھیں! کیونکہ اس وقت آپ اپنی روح کو پرسکون اور زیادہ آسودہ محسوس کرتے ھیں۔ 

مجھے لگتا ھے کہ اس میں قدرت کا انرجی کے بہاوٴ کا اصول کارفرما ھے۔کہ جب ہم کسی کو انرجی فراہم کرتے ھیں اسی خوشی دے کر،اس کی مدد کر کے ،تو وہ انرجی کئی گنا زیادہ ھو کر آپ کی طرف لوٹ آتی ھے۔ اور دوسروں کو خوشی دینے سے آپ اپنے اندر خوشی محسوس کرتے ھیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے نیوٹن نے کہا "عمل اور ردعمل برابر ہوتے ھیں لیکن مخالف سمت میں" ہاں لیکن یہاں مقدار کا فرق ضرور ھے۔

اس لیے جب آپ کو محبت درکار ھے تو آپ دوسروں سے محبت کریں۔اپنے اردگرد سے محبت کریں۔محبت خود بخود آپ کے اندر بہنا شروع ھو جائے گی۔

Tuesday, February 1, 2011

I Reflect

When I See My Mother,
Loving Me,
I Reflect,
God Loves Me More,
Than This Mother.

When I See My Father,
Thinking For Me,
I Reflect,
God Thinks For Me More,
Than This Father.

When I See My Friend,
Caring For Me,
I Reflect,
God Cares For Me More,
Than This Fiend.

When I See Some Child,
Attracting Me,
I Reflect,
God Is Attractive More,
Than This Child.

When I See Some Beauty,
On This World,
I Reflect,
God Is Beautiful More,
Than This Beauty.

Wednesday, January 26, 2011

فطرت ، بھوک ، رزق اور ذہنی ارتقا

 

فطرت،بھوک، رزق اور زہنی ارتقا

 

 

ان موجوں کی طرح انسان کی بھی عجیب زندگی ھے۔یہ بھی ھر لمحے اضطراب میں رہتی ھیں۔ ہر لمحے کی تڑپ انہیں چلتے رہنے پر مجبور کرتی ھی۔آتی ھیں،ساحل سے ٹکراتی ھیں اور پھر لوٹ جاتی ھیں۔اور پھر یہی چکر چلتا ھے۔اسی طرح انسان بھی ہر لمحے بےچین رہتا ھے۔ہم سب فطرتاٌ بےچین طبیعت کے مالک ھیں۔اور یہی بے چینی ھماری اکساہٹ،رغبت اور رجحان کا نتیجہ بنتی ھے۔ھم اس بےچینی کو ختم کرنے کے لئےمختلف ذرائع ڈھونڈتے ھیں،مختلف مشاغل اپناتے ھیں۔صرف اپنے اندر کو باہر لانے کے لئے۔۔۔۔اپنے اندر سے ملنے کے لئے۔۔۔۔خود کو مطمئن کرنے کے لئے۔۔۔۔۔ 

ذہنی ارتقا کا حصول انسان کے لیے بھوک کا باعث ھے۔اسے ذہنی ارتقا حاصل کرنا ہوتا ھے کیونکہ وہ اس کی ضرورت ھے خود کو مطمئن کرنے کی۔اور جب وہ اس کے حصول میں جت جاتا ہے تو وہی ایک طرح کی بھوک بن جاتی ھے۔اسے ذہنی ارتقا حاصل کرنا ہوتا ھے کیونکہ وہ  تواس کی فطرت کا لازمی حصہ ھے۔اور کیونکہ ہر ایک کی فطرت الگ ھے تو پھر بھوک بھی مختلف قسم کی ہوتی ھے۔کوئی پیسے کا بھوکا ہوتا ھے،کوئی خود کو بہت آگے لے جانا چاہتا ھے،کوئی فنکاروں میں اپنا نام پیدا کرنا چاہتا ھے،کسی کو بہت بڑا بزنس مین بننا ھے،کسی کو اپنے ملک اور قوم کے لئے بہت کام کرنا ھے، کسی کو لیڈر بننا ھے،کسی کو جنگجو بننا ھے،کسی کو علم کی پیاس ھے اور کسی کو خود سے جیتنا ھے! 

اس لئے رزق صرف وہ نہیں ہوتا کہ دو وقت کا کھانا،بلکہ ہر وہ شے رزق ھے جو رب تعالٰی نے آپ کو بہتر محسوس کرانے کے لئے بنائی ھے۔حسن آنکھوں کا رزق ھے،موسیقی کانوں کا رزق ھے،خوشبو ناک کا رزق ھے اور ہوا آپ کی سانوں کا رزق ھے۔ اور ان سب چیزوں سے حاصل ھونے والی آسودگی اور محبت آپ کی روح کا رزق ھے۔سوچیئے اگر آپ یہ سب حاصل یا محسوس نہ کر پائیں تو کیا آپ خود کو مکمل طور پر بہتر محسوس کر پائیں گے؟ جب ہم وہ چیز حاصل کرتے ھیں جسے ھم پسند کرتے ھیں تو ہمارے اندر مثبت احساس پیدا ہوتا ھے۔ہم خود کو بہتر محسوس کرتے ھیں اور اپنے اندر ایک انرجی محسوس کرتے ھیں۔یہی انرجی ہمیں خود کو بہتر محسوس کرواتی ھے۔۔اور یہ خود کو بہتر محسوس کرنا ہی ھمارے ذہنی ارتقا کا حصول ھے۔ لہٰزا یہ فطرت ، بھوک ، رزق اور ذہنی ارتقا سب آپس میں جڑے ھوئے ہیں۔جن کے ملے سے ایک انسان وجود میں آتا ھے۔ تڑپتا ھوا، اضطراب کا مارا ہوا اور اپنے رزق کی تلاش میں پھرتا ھوا۔۔۔۔۔۔

میری قوم کا ایک عام انسان




امیدکے دیئے پر جلتابجھتاانسان
 
زندہ رہنے کی کوششوں میں تھکا انسان
 
دنیا کی رنگینیوں سے سہما انسان 

اپنے ارد گرد سے تنگ آیا انسان
 
زندگی کی دوڑ سے ہارا انسان
 
اپنے آپ سے الجھا،بےبس انسان 

میری قوم کا ایک عام انسان!

عکسی


 


وہ وقت کو لمحوں میں قید کرنے کا فن جانتی تھی۔ہمارا المیہ یہ ھے کہ ہم زندگی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اوراسی تلاش میں طےشدہ وقت ختم ہو جاتا ہے۔لیکن وہ زندگی کو جیتی تھی۔وہ شکایتوں کے فن سے نا آشنا تھی کہ ہم جیسے لوگ تو اس کے سوا کچھ کرتے ہی نھیں۔وہ دکھنے میں ایک لاابالی سی لڑکی تھی۔لاابالی اس طرح کہ اسے نئی چیزیں کرنے کا خوف نھیں تھا۔وہ لوگوں اور نئی سرگرمیوں میں داخل ہونے سے خوفزدہ نھیں ہوتی تھی۔لھٰزا خود میں آزاد تھی۔ورنہ ایک مڈل کلاس آدمی نے تو خود کو ایسی بندشوں میں جکڑا ہوتا ہے کہ اس کی خود پر عائد کردہ پابندیاں اور جھجک ہی اس کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔وہ جینے کا فن جانتی تھی اس لئے وقت اس سے کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔ شائد وقت سے یہ برداشت نہ ہو پایا کہ کوئی اسے مات دے دے اس لئے اس نے اسے اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔وہ لمحوں میں جینے کی عادی تھی اس لئے ہر لمحہ اس کے لئے ایک یادگار بن کر گزرتا۔اور یہی زندگی جینے کا اصلی فن ہے۔کہ ہم لوگ تو زندگی گزارتے ہیں لیکن وہ زندگی جیتی تھی۔اور یہی ہم میں اور اس میں فرق ہے۔اور اسی لحاظ سے وہ منفرد تھی۔

انسان


تم جو کہتے تھے کہ میں آزاد ہوں

تم تو اپنی ہی ذات میں قید نکلے

اپنی ہی خواہشات کے اسیر نکلے

اپنی ہی دنیا کے قیدی نکلے

خود پیدا کردہ زنجیروں کے باسی نکلے

وہ کہاں گیا تمہارا آزادی کا دعوی؟

قصور تمہارا نہیں

قید تو ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ھے

ہم قید کر دیئے گئے ہیں

ازل سے اپنی ذات میں بند کر دیئے گئے ھیں

ہم آزاد ہو ہی نہیں سکتے

ہم اپنی فطرت میں قید کر دیئے گئے ھیں

اور فطرت سے کبھی آزاد نہیں ہوا جاتا!

اے کاش کہ میں آزاد پنچھی ہوتا


اے کاش کہ میں آزاد پنچھی ہوتا


ہواوٴں میں اڑنا میرا مقدر ہوتا


بےفکری کے مزے لوٹنا میری زندگی ہوتا


تضاد سے پاک میرے خیال ہوتے


نفرت سے عاری میرا دل ہوتا



علم کا مجھ پر بوجھ نہ ھوتا



سوچ کی مجھ پر وحشت نہ ہوتی



زندگی اپنی فکر کے جھمیلوں میں نہ پڑتی



سنگیت اپنے فضاوٴں میں بکھیرتا



نتائج سے عاری میرا ذھن ہوتا



اے کاش کہ میں آزاد پنچھی ہوتا

ڈائری سے ایک ورق


انسان۔۔۔۔مقام۔۔۔۔مقصد۔۔۔انا۔۔۔۔کوشش۔۔۔۔جذبات۔۔۔۔سب آپس میں جڑے ھوئے ھیں۔ انسان اور مقصد کی کھینچاتانی تو اس کی پیداٴش کے بعد ہی سے شروع ہوجاتی کبھی مقصد انسان کو اپنی طرف راغب کرتا ہےاور کبھی انسان اس کی طرف چلا جاتا ہے۔بس یوں سمجھ لیجیے کہ کائنات کا ایک لاذمی عمل شروع ہو جاتا ہے۔کیونکہ یہ سب انفرادی مقاصد مل کر کائنات کے اجتماعی مقصدکی طرف عمل پیرا ہوتے ہیں۔لہٰذا اگر کوئی انفرادی شخص اپنا کام ٹھیک سے نہیں کریگا تو یہ بلاواسطہ کائنات کے مفصدپر اثراندازہوگا۔یعنی پھر قدرت کائنات کے اجتماعی مقصد کے حصول کے لئےانفرادی طور پر لوگوں سے کام لازمی کروائے گی۔مطلب ایک شخص کو جس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہےوہ لازمی طور پر کر کے ہی اس دنیا سے رخصت ہوگا۔ایسا نہیں ہوگا کہ ایک شخصکو اللہ تعالٰی نے کسی کام کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ اسے کئے بغیر رخصت ھو جائے۔۔۔۔قدرت کے اپنے قانون ہیں جو اس کائنات پر عمل پیرا ہیں اور ہر کوئی اپنا کام کر رہا ھے۔اگر ایسا سوچا جائے کہ قدرت نے مجھے جس کام کے لئے پیدا کیاہے وہ مجھ سے وہ کام لے کر ہی رہے گاتو سارے مسئلے ہی حل ہوجاتے ہیں۔نہ کوئی اینگزائٹی نہ ڈپریشن اور نہ کچھ اور اس قسم کا مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ آخر انا کیا چیز ہے؟شاید انسانوں کاخودکاپیداکردہ دل، ذہن اور سوچ کے گرد ایک حصار۔۔۔۔۔۔جس سے وہ باہر نکل نہیں سکتے۔۔۔۔یا پھر وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس حصارکےباہر قدم رکھنے سےوہ جل جائیں گے۔انسان اس حصار کے اندر ایک خاص قسم کی سوچ کے ساتھ رہتا ہےاوراسے لگتاھے کہ یہی ٹھیک ھے۔اور جو اس دائرے سے باہر ھے وہ سب غلط ھے۔۔۔۔۔خود کی بنائی ہوئی روایتیں،خود کے بنائے ھوئے قائدےاور اصول۔۔۔۔یعنی خودکی بنائی ہوئی زنجیریں جس میں وہ بڑےشوق سے رہنا پسند کرتا ھے!اور ان زنجیروں کے باہر وہ خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ھے! دوسرے لفظوں میں یہ ایک طرح کاپاگل پن بھی کہا جا سکتا ہے!درحقیقت انسان کو لگتاہے کہ وہ اگر اس حصار کے اندر رہے گا تو بڑے اعلٰی مقام پر فائز رہے گا۔اور اگر اس سے باہر آئیگا تو اپنے مقام اور رتبے سے گر جائے گا۔یعنی یہ اعلٰی مقام سوچ بھی انا پرستی میں اضافے کا موجب ھے۔جاہل انسان پہلے تو حدبندیاں کرتا ہے اور پھر اسے توڑنے کی کوشش کرتا ھے۔ کہیں ٹک کر سکون سے ایک جگہ بیٹھ نھیں سکتا۔اور بیٹھے بھی کیسے تغیر تو انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا ھے۔اب اگر وہ سکوت کی آرزو بھی کرے تو اسے خالق کائنات سے یہ جواب ملتا ھے کہ اے انسان کیا تو میرے برابر ہو نا چاہتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔سو مجبوری ھے انسان کو تو ایسے ہی رہنا پڑیگا۔اب چاہے جیسی مرضی زندگی گزارے۔یہ تو انسان پر منحصر ہے کہ وہ کیا پسند کرتا ہے اپنے لئے۔۔۔۔۔

Wednesday, January 12, 2011

کھڑکی




کھڑکی





ٹپ ٹپ گرتی بوندوں کی آواز جب اس کے کانوں میں پڑی توا چانک یوں محسوس ھوا کہ جیسے صدیوں کی ریاضت اس سے اس ایک پل میں چھین لی گئ ہو!وہ جن لمحوں پر عرصے سے وقت،سوچ اور اجتناب کی ریت ڈالتا چلا آیا تھا تاکہ ان سے بچا جا سکے. یکدم سے اس جھکڑ نے وہ ریت ہٹا کر پھر سے وہی لمحے عیاں کردیئے تھے۔اور وھ اداسی وحشت اور غمزدگی کی ملی جلی کیفیت میں انھیں دیکھ رہا تھا۔


وقت۔۔۔۔آہ یہ کمبخت وقت کبھی پیچھا نہی چھوڑتا-ھمیشہ ایک تماشائی کی طرح انسان کے ساتھ رہتا ہے۔اور خاموشی کے ساتھ ہر شے کہ اپنے ساتھ محفوظ کرتا جاتا ہے۔آج پھر اس نے بوندوں کے سحر سے فائدہ اٹھا کر اس کے سامنے کچھ گزشتہ یادگار لمحوں کی فلم چلا دی تھی۔

جب وہ ہمیشہ اس لمحے کا انتظار کیا کرتا تھا۔اور اپنے ھمسفر یا شائد وہ جسے ھمسفر سمجھ بیٹھا تھاکہ ساتھ ہوتا تھا۔ اور پھر ان لمحوں کے ساتھ کچھ چلبلی،چھیڑ چھاڑ اور ہمیشہ یاد رہنے والی یادیں ہوتی تھیں۔ اس بارش کے لئے وہ ھمیشہ انتظار کیا کرتا تھا۔کچھ لمحوں کے لئے وہ ان یادوں میں کھو سا گیا۔ حتٰی کہ بجلی کی چمک اور بادلوں کی گڑگڑاہٹ نے اس سحر کو توڑا۔۔۔۔۔وہ تو وہیں کا وھیں کھڑا تھا۔۔۔۔ھمیشہ کی طرح تنہا۔۔۔ااگرچہ باہر ایک دنیا آباد تھی۔کہانیوں سے بھری دنیا۔۔۔۔۔آنسووٴں اور قہقہو ں میں ڈوبی دنیا۔۔۔۔۔لیکن اسے اس دنیا سے کیا لینا دینا تھا۔اسے اپنے ذات کے بکھیڑوں سے ہی فرصت نہیں تھی کہ وہ اس پر غور کرتا۔

وہ بچبن ہی سے ایسا تھا یا حالات کی وجہ سے ایسا تھا،پتہ نہیں۔لیکن ہاں اتنا ضرور کہا جا سکتا تھا کہ وہ کسی تلاش میں تھا۔اس کے اندر کچھ ایسی چیز تھی جو مسلسل اسے اکسائے رکھتی تھی۔اور اس نے اس کاسکون برباد کیا ہوا تھا۔ اس نے خوشی اور سکون کو باہر کی دنیا میں تلاش کر کے دیکھ لیا تھا۔ لیکن وہ سب عارضی ثابت ہوا تھا۔

  ہم اپنی ذات کی خوشی دوسروں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔اور جب دوسرے ہماری توقعات کے برعکس ردعمل کا اظہار کریں تو ہم مایوسیوں کےاندھیروں میں غوطے کھانا شروع کر دیتے ھیں۔اور پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دراصل جب ہم دوسروں پر انحصار کرنا شروع کر دیتے ھیں تو ہمارا عمل اور ردعمل دوسرے کی ذات کے عمل کے ساتھ وابستہ ہوتا ھے۔ اور جب زندگی کا ردعمل دوسروں کے عمل پر ہو تو ہم دوسروں کے رحم وکرم پر ہوتے ھیں۔خوشی اور غم کا کارن دوسرے بن جاتے ہیں ۔جو کہ ایک ناقابل بھروسہ ذریعہ ہے۔ اس لئے وہ خوشی جو دوسروں کے عمل پر منحصر ہو زیادہ دیر تک بھروسہ نھیں کیا جا سکتا۔ کچھ ایسا ہی اس کے ساتھ ہوا تھا۔وہ اس حقیقت سے واقف ہو چکا تھا۔ لیکن اگر خوشی اندر سے حاصل ہوتی تو وہ پھر اندر سے خوشی کیسے حاصل کرتا جہاں پر صرف اندھیرے پل رہے تھے۔

جب بارش کچھ تھمی تو سورج پھر بادلوں کی اوٹ سے اپنا چہرہ دکھانے لگا۔اور دن ایک بار پھر سورج کی روشنی میں چمکنے لگا۔آفان کو کچھ کتابیں لینا تھی جناح لا ئبریری سے۔لہذا اس نے لارنس گارڈن جانے کا سوچا۔اب یہ کتابیں ہی اس کا مسکن تھی۔جن کے زریعے وہ اپنی منزل کی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کرتا۔

یہ باغوں میں بھی طرح طرح کے لوگ ھوتے ھیں۔اداس،غمگین،الجھے ہوئے،بچھڑے ھوئے،خوش اور آزاد وغیرہ وغیرہ۔ لارنس پہنچنے پر اسے یہ احساس ھوا۔ "یہ لوگ اتنے خوش اور آزاد کیسے ہوتے ہیں؟" اس کا خود سے اکثر یہ سوال ہوتا۔جب وہ لوگوں کو خوش ہوتے دیکھتا تو اسے ایک جلن سے محسوس ہوتی۔ ایسے ہی خوش ،آزاد اور مطمئن چہروں میں سے ایک چہرہ مالی بابا رمضان کا ھوتا۔وہ عمر کے لحاظ سے ساٹھ برس کے قریب تھے۔ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک پدرانہ شفقت موجود ہوتی۔ اور ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے وہ بہت لمبی مسافت طے کر چکے ھیں۔ آفان کی اکثران سے سلام دعا ہو جاتی تھی۔لیکن زیادہ بات چیت کبھی نہیں ھوئی۔

"کیسے ہو بیٹا آفان ؟" آج اچانک ان کی ہی نظر پہلے اس پر پڑ گئی تھی۔لائبریری کے اکثر چکر لگانے کی وجہ سے وہ اسے جانتے تھے۔"جی میں ٹھیک ھوں۔آپ سنائیں کیسے ھیں؟" "میں بھی بلکل ٹھیک ھوں اللہ کے فضل و کرم سے۔لیکن تم ٹھیک نہیں لگتے؟" "میں تو ھمیشہ سے ہی ایسا ھوں جی۔" اس نے قدرے چڑ کر کہا۔ لوگوں سے زیادہ بات چیت کرنا اسے پسند نہ تھا۔ "او پتر تیرا یہی تو مسئلہ ھے"۔مالی بابا نے کہا۔یکدم سے اسے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے اس کے اندر جھانک لیا ھو۔  

"تو نے باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کو بند کر دیا ھے اور اپنے اندر مایوسی کے اندھیرے بسا لیئے ھیں۔۔۔۔۔او پتر جب کسی کمرے کو باہر کی ہوا نہیں لگتی نہ تو اس کے اندر جالے لگنا شروع ہو جاتے ھیں۔اور جب اس کی زیادہ دیر تک صفائی نہ کی جائے تو گردوغبار کی وجہ سے اس کی اصل شکل دیکھنا بڑا مشکل ہو جاتا ھے۔تیری ذات کے اندر بھی جالے لگ چکے ھیں۔۔۔۔۔او تو باہر والی کھڑکی کھولے گا، اپنے اندر امید کی کچھ روشنی ڈالے گا تو تبھی اپنی ذات کے جالے صاف کر سکے گا نہ،اور تبھی اپنے اوپر کام کر سکے گا ۔ کبھی اندھیرے میں بھی کام ھو تا ھے بھلا؟ ہم سمجھتے ھیں کہ خود کو اپنے اندر بند کرنے اور دنیا سے کٹ کر رہنے سے ہی خدا مل سکتا ھے -اس لیے ہم باہر کی طرف کھلنے والی ساری کھڑکیاں بند کر دیتے ھیں۔اور سمجھتے ھیں کہ اب ہمیں اپنی منزل مل جائے گی،لے دس مینوں۔۔۔۔۔کبھی راستے پر چلنے کے بغیر بھی منزل ملتی ہے؟ اور راستہ تو باہر سے اندر کو جاتاہے۔اندر سے اندر کو نہیں۔۔۔۔۔اور وہ تو ہر جگہ بیٹھا ہے یار۔۔۔۔ہر راستہ اسی کی طرف جاتا ھے۔۔۔۔۔بات خالی سمجھنے کی ھے۔اور یہ سمجھنا ہی ہمیں ہماری منزل تک لے جاتا ہے۔خود اس نے اپنی کتاب میں کتنی بار دعوت دی ہے۔ "تو کیا تم غور نہیں کرتے؟۔۔۔۔اور تم دیکھتے نہیں۔۔۔۔۔اور اس میں نشانیاں ہیں اہل عقل کے لیے" ۔اور اگر سارے راستے دنیا سے کٹ کر اندر سے اندر کی طرف جاتے تو وہ باہر دنیا کو دیکھنے کی دعوت کیوں دیتا؟

اس لیے کہ وہ اس کائنات کے ذرے ذرے میں آپ موجود ھے! یہ سارے جلوے اسی کے ہیں۔۔۔۔۔۔تو اس کائنات کو دیکھ اور اس پر غور کر۔۔۔۔۔اپنی ذات کی باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں کھول۔۔۔۔۔۔اور ہاں اس کائنات کی جو سب سے اہم چیز ھے وہ ہے انسان۔کبھی ان کو دکھ نہ دئیں۔اور ان سے محبت کر جیسا کہ ہمارے سوہنے نبی کریم نے فرمایا ھے۔"اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ایک ماں سے ستر گناہ زیادہ محبت کرتا ھے۔"  تو بس تو بھی ان سے محبت کر، ان کا خیال رکھ اور ان کے کام آ جن سے وہ محبت کرتا ھے۔منزل تک آپ ہی پہنچ جائیں گا"۔ 

"لے ہن مینوں اجازت دے۔"مالی بابا کے آخری الفاظ سن کر وہ اپنی دنیا میں واپس آیا جو کہ کافی دیر سے ان کی باتوں میں کھو گیا تھا۔ ان کی باتیں سن کر اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس کے دل ودماغ کی ساری کھڑکیاں کھل گئی ہوں اور ساری گتھیاں سلجھ گئ ہوں۔ جب وہ یہاں آیا تھا تو اس کا دل منوں بھاری اور بوجھل تھا۔لیکن جاتے ہوئے وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔


Tuesday, January 4, 2011

INNOCENCE LOST

By UX ANWAR(1990-2007)


So clearly do the crystal eyes speak,
Such depth in their mute words,
How can one but not feel touched,
By the way they see the world.


I saw the eyes of the naked child,
The truth in them, so clear and bright,
The desperation, the hopelessness, the cry,
The tears forever possessing the eye.

I saw the eyes of a beggar boy,
Begging to be held, begging to be loved,
Begging for care, begging for hope,
Begging for a world, begging for a life.

I saw the eyes of the beaten child,
Scared and stiff, ready to die,
The eyes were full of terror and sorrow,
Glowing dimmer with every tomorrow.

I saw the eyes of that innocent sister,
Who was deprived of all her joys,
Who was raped of all her happiness,
Who was now a mere case of ‘innocence lost’.

I saw the eyes of the child who worked,
Day and night in the burning, scorching heat,
Look at the eyes of that lonely, homeless boy,
Who builds the foundation of homes of love.

I saw the eyes of the illiterate child,
Who saw me going to school everyday,
Who saw me climbing each step of knowledge,
While he waited every week for his paycheck.

I saw the eyes of that utterly deprived sister,
Who was the student of the household,
Who saw her brother through the door of enlightenment,
A border she was never allowed to cross.

Look into those injured eyes for once,
Try to understand their desperate plea,
Try to look through my eyes,
In which the hopes and dreams are still free.

The mystery of those eyes shimmers and shines,
Waiting for you and me to clarify it,
The tears halt and stay,
Waiting for you and me to dry them.

The hearts are crouched in their darkness,
Waiting for you and me to light them again,
The feelings are long since desolate,
Waiting for you and me to feel them.

So let's be the raindrop in the desert,
Let's be the raft in the river,
Let's be the white doves that soar through the sky,
Let's be the answer to their cry.

Let's be the light of their eye,
Let's be the hope of their sigh,
Let's be the warmth of their hugs,
Let's be the love of their lives.