Friday, January 13, 2012

قید اور آزادی



چاہنے کی قید، چھوٹی چھوٹی خواہشات کے پیچھے بھاگنے کی قید، تغیر سے پیدا ہونے والی ہر نئی خواہش اور جستجو کی قید، چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش کی قید ۔ دراصل اانسان کی تغیر پسند فطرت سے خواہش کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ وہ اس تغیر کے زیر اثر ہر لمحے بدلاؤ چاہتا ہے۔ ہر لمحے ایک نئی خواہش امڈتی ہے اور ایک پرانی فوت ہوتی ہے۔ اور اس طرح وہ اس میں قید ہو کر رہ جاتا ہے۔

دراصل یہ قید اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان خواہش کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ رزلٹ میری مرضی کا آئے۔ چیزیں میری مرضی کے مطابق ہوں۔ اور اس مقصد کے لیے وہ اپنی پوری کوشش لگا دیتا ہے۔ اور یہ میری مرضی کے مطابق چاہنے کا ہونا درحقیقت قید ہے۔ جب انسان چیزوں سے بلاواسطہ منسلک ہو جائے۔ جب اس کی ساری توقعات چیزوں سے بلاواسطہ بندھ جائیں،تو پھر انسان قیدی ہو کر رہ جاتا ہے ان خواہشات کا۔ اور جیسے یہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تاریں حرکت کرتی ہیں یہ بلا واسطہ بندھا انسان بھی ساتھ ساتھ ہلتا ہے۔ اب اگر انسان ان چھوٹی چھوٹی تاروں سے بندھنے کی بجائے اگر بلاواسطہ اس بڑی رسی کے ساتھ تعلق قائم کرے تو پھر وہ ان ساری چھوٹی چھوٹی قیود سے آزاد ہو جاتا ہے۔ پھر اس کی ہر توقع اس بڑی رسی کے ساتھ بندھ جاتی ہے۔ پھر اس کا ہر کام اس بڑی رسی کے تحت ہوتا ہے۔ پھر اس کا ہر معاملہ اس بڑی رسی کے ساتھ ہوتا ہے۔

اور پھر جب وہ ان چھوٹی چھوٹی قیود سے آزاد ہو جاتا ہے تو اس کی اصل پرواز شروع ہوتی ہے۔ اور پھر سب چاہنا اور نہ چاہنا اس بڑی رسی کے تحت ہو جاتا ہے۔ اسی چیز کو رب تعا لیٰ نے یوں فرمایا ہے۔

 "و تعصمو بحبل اللہ جمیعاً ترجمہ:اور تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو"

اور پھر نہ وہ چھوٹی چھوٹی خواہشات میں الجھتا ہے۔ اور نہ اسے کسی چیز کا خوف ہوتا ہے اور نہ غم۔ کیونکہ خوف اور غم پیدا ہی اس وقت ہوتے ہیں جب انسان چیزوں کے ساتھ بلاواسطہ طور پر بندھ جائے۔ اور چیزیں اس کی خواہش کے مطابق نہ ہوں۔

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں  " اور اللہ کے بندوں کو نہ خوف ہوتا ہے نہ غم" 

کیونکہ وہ اپنی خواہشات کے ساتھ بندھے نہیں ہوتے، چیزوں سے انہیں توقعات نہیں ہوتیں۔ ان کی ہر توقع اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہی ان کی رضا ہوتی ہے۔ وہ چیزیں برخلاف عادت ہونے پر واویلہ نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے اور اس نے کچھ بہتر ہی سوچا ہوگا ان کے لیے۔ اسی لیے قلندر بابا اولیا رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

 " انبیا کی طرز فکر اختیار کرو اور انبیا کی طرز فکر یہ ہے کہ ہمارا کسی بھی چیز کے ساتھ بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ بلواسطہ اللہ ہے۔"

اس طرح کسی بھی چیز کو سوچنے سے پہلے ہمارا خیال اس کے خالق اللہ تعالیٰ کی طرف جائیگا۔ اور ہم کسی بھی چیز کو سوچنے سے پہلے اس کے خالق کو سوچیں گے۔ لہٰذا ہمارے تمام معاملات چیزوں سے  منسلک ہونے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑے ہوں گے۔

 

      

Saturday, December 31, 2011

پناہیں


 
پناہیں


سیمی شاہ کے پاس تو کوئی راستہ نہ تھا قاسم، کوئی اور پناہ گاہ ہی نہیں تھی محبت کے سوا۔ لیکن تم،تمہارے پاس تو کئی راستے ہیں قاسم،کئی پناگاہیں۔۔۔۔ تم تو اپنا پڑا ؤ کہیں بھی ڈال سکتے ہو۔۔۔۔
ہاں مریم،ہر شخص کی ذات کے اندر اور باہر کئی پناگاہیں ہوتی ہیں جن کے ذریعے وہ خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ باہر پناہ ڈھونڈتا ہے۔ جب اسے باہر پناہ نہیں ملتی تو وہ اندر راستہ ڈھونڈتا ہے۔ سیمی شاہ کے پاس جب باہر کے راستے بند ہو گئے تو وہ اپنے اندر بھی کوئی دروازہ نہیں ڈھونڈ پائی۔ شاید اسے اس بارے میں بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ بھنک تک نہیں تھی اسے اس بات کی۔اگر پتہ ہوتا اس بات کا کہ اس کی بند گلی بند نہیں تھی تو جانے کن بلندیوں پر پہنچ جاتی۔۔۔۔

پناہ کے دو درجے ہوتے ہیں پہلا جسم اور دوسرا روح۔ انسان پہلے جسم کو آسائش مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب چین پھر بھی نہیں بن پڑتا تو روح کی آسودگی کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ جب روح کو کوئی راستہ نظر نہیں آتا تو وہ کسمسانے لگتی ہے، ان دیواروں کو کھٹکھٹانے لگتی ہے؛حتیٰ کہ گھنٹیاں اس قدر شدید ہو جاتی ہیں کہ انسان کو دروازہ کھولنا ہی پڑتا ہے،جسم سے آزادی کا،روح کی معرفت کا یا پھر کوئی اور۔۔۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے پناہ گاہ اتنی ہی اہم ہوتی ہے انسان کے لیے؟
ہاں! پناہوں کے بل بوتے پر ہی تو انسان زندہ رہتا ہے مریم۔ ہم سب انسان زندہ رہنے کے لیے پناہیں ڈھونڈتے ہیں۔ معاشی پناہیں،معاشرتی پناہیں،جزباتی پناہیں؛ یوں سمجھ لو کہ سانس لینے کے بعد جو چیز انسان کے لیے اہم ہوتی ہے وہ یہ پناہ گاہ ہے۔
تم یہ سامنے لڑکی کو دیکھ رہی ہو گارڈن میں،جو پوری طرح کینوس میں رنگ بھرنے میں منہمک ہے۔ یہ آرٹ اس کی پناہ گاہ ہی تو ہے جو اس نے اپنی ذات کے لیے چنی ہے۔۔۔

ایک عام آدمی،لے مین، شادی میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ اس کے پاس زندگی گزارنے کے لیے کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا۔ وہ یونہی بس چلتا چلا جاتا ہے۔ اس کی زندگی کا محور شادی ہی ہوتا ہے۔ پہلے پڑھائی کرو،خود کو اس قابل بنا ؤ ، اچھی نوکرِی حاصل کرو اور پھر شادی کر لو۔ اور اس کے بعد ساری زندگی اس کے بعد کے اثرات سے نمٹتے ہو ئے گزار دو یعنی بچے پالو۔ انہیں بڑا کرو اور ان کی بہتر پرورش کے لیے تگ و دو کرو۔

یہ سب کیا ہے؟ پناہ گاہ ہی تو ہے۔ کبھی نہ ختم ہونے والے سائیکل میں داخل ہونا۔ جواز دینا زندگی کو۔ خود کو زندہ رہنےکے لیے محرک دینا! یہ سب ایک ذریعہ ہے وقت گزاری کا۔ یا یوں کہو کہ زندگی گزاری کا۔۔۔۔۔۔
بہت سے لوگ طوائف کے پاس اس لیے نہیں جاتے کہ انہیں جنس کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ وہ جزباتی طور پر تنہا ہوتے ہیں۔ ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہوتی لیکن ان کی انتہائی مصروف زندگی میں ان کے اپنے آپ کو بانٹنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس لیے انہیں جزباتی پناہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
کچھ لوگوں کے لیے وقت گزاری اہم ہوتی ہے۔ کچھ دن پہلے میں قلفی بیچنے والے ایک بوڑھے بابا جی سے ملا۔ وہ انتہائی ضعیف تھے لیکن پھر بھی قلفیاں بیچا کرتے تھے۔ میں نے کہا بابا جی آپ کی کوئی اولاد نہیں ہے؟آپ کیوں یہ تکلیف کرتے ہیں۔ تو کہنے لگے میرے چار بیٹے ہیں۔ ماشااللہ چاروں کماتے ہیں۔اپنا مکان ہے۔ تو میں نے کہا پھر آپ یہ محنت کیوں کرتے ہیں جبکہ آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے اس کی؟ وہ کہنے لگے وقت نہیں گزرتا گھر میں۔دل نہیں لگتا۔ اور جب  مجھے زندگی رکی ہوئی محسوس ہوتی ہے تو پھر میں قلفیاں بیچنے لگتا ہوں۔
تو ان بابا جی نے پناہ گاہ کے طور پر وہ راستہ اپنایا تھا
کل میں ٹی وی پر ایک ضعیف شخص کو دیکھ رہا تھا۔ جو کہ کئ سال سے کورٹ کچہریوں کے چکر لگا رہا تھا۔ جائیداد کا تنازعہ تھا۔ وہ شخص روز صبح قصور سے آتا اور شام تک بیٹھا رہتا پیشی اور فیصلے کے انتظار میں۔ کل جب آٹھ سال بعد مقدمے کا فیصلہ ہوا اور وہ بھی اس کے حق میں تو وہ خوش نہیں تھا۔ پتا ہے کیوں؟ اس کا کہنا تھا کہ وہ روز صبح آتا اور شام کو گھر واپس جاتا تو سارا وقت اسی میں گزر جاتا اور دل بہل جاتا تھا۔ اب اس کے پاس کوئی مصروفیت نہیں ہے۔ اب وہ اپنا وقت کیسے گزارے گا! سو یہ بھی پناہ گاہ تھی۔
  تم دیکھو محرک کتنا اہم ہوتا ہے۔ ہم جواز کے بل بوتے پر آگے بڑھتے ہیں۔ پناہیں ہمارا سہارا ہوتی ہیں۔ اور یہ پناہیں بھی دو طرح کی ہوتی ہیں۔ اہک اندرونی اور ایک بیرونی۔ یہ جو سیمی شاہ اور اس آرٹسٹ لڑکی کی پناہ گاہ تھی نہ ، یہ اندرونی تھی اور ان بوڑھے بابا جی اور اس ضعیف شخص کی بیرونی۔ جب روح تڑپتی ہے تو اندرونی پناہ گاہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور جب جسم بے چین ہوتا ہے تو بیرونی پناہ گاہ چاہیے ہوتی ہے۔۔۔۔ہر ایک کی اپنی اپنی قسمت ہوتی ہے یا پھر ضرورت۔۔۔۔کچھ لوگ اندر سے باہر کی طرف سفر کرتے ہیں اور کچھ باہر سے اندر کی طرف۔۔۔۔
شراب اور نشہ۔۔۔ یہ بھی تو پناہ گاہیں ہی ہیں؛ عارضی پناہ گاہیں؛ جسم سی دماغ کا رابطہ توڑنے کے لیے؛ خود کو تھوڑی دیر کے لیے آزاد کرنے کےلیے؛ان سوچ،عقل اور اصولوں کے دائرے سے نکلنے کے لیے۔۔۔
کچھ لوگ پیسے، سٹیٹس میں بھی تو پناہ ڈھونڈتے ہیں قاسم۔ کیا انہیں واقعی اس میں پناہ مل جاتی ہے؟
ہاہا،ہنستے ہوئے، پناہ تو کسی بھی چیز میں مل جاتی ہے مریم۔ لیکن شاید تم یہاں پناہ اور سکون کو گڈمڈ کر رہی ہو۔ دونوں میں بہت فرق ہے مریم بی بی۔ لازم نہیں کہ ہر وہ شے جو ہمیں پناہ دے ہماری روح کو اطمینان بھی دے اور سکون بھی مہیا کرے۔ پیسا بنانے کی مشین بننے سے وقت تو گزارا جا سکتا ہے، زندگی کو جواز تو دیا جا سکتا ہے، معاشرے میں مقام تو حاصل کیا جا سکتا ہے، اس سے ہم اپنی معاشرتی زندگی کے ٹمٹاتے چراغ کی لو کو تو روشنی دے سکتے ہیں لیکن سکون کی میں گارنٹی نہیں دے سکتا۔
تم دونوں یہاں بیٹھے ہو۔ سر ناصر کب سے تمہارا انتظار کر رہے۔ کیا کلاس لینے کا ارادہ نہیں ہے؟ ایک لڑکی نے پیچھے سے آواز لگائی۔
ارے۔۔۔وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ چلو۔۔۔۔اور وہ تینوں کلاس روم کی جانب چل پڑے۔


  

Friday, November 4, 2011

خالی



میں اپنی ذات کے سارے چیک کیش کروا چکا تھا اور اب خالی ہاتھ ریت کے صحرا میں بیٹھا تھا۔ کچھ خالی رہ جانے کا غم تھا،کچھ تنہائی کا خوف اور کچھ اپنے کھو کھلے پن کی اذیت۔۔۔۔ ابا جی ہمیشہ کہتے تھے کہ نہ پتر اتنا زیادہ بولا نہ کر،نہیں تو خالی رہ جاَئے گا۔ تو تو اپنا سارا کچھ ہی کیش کروانے پے تلا ہوتا ہے کچھ اپنے لیے بھی رکھا کر۔ پر مجھے ابا جی کی یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی۔ میں کہتا لو بھلا یہ کیا بات ہوِئی۔ بولنے سے بھی بھلا کوئی خالی ہوا ہے اور کسی کا کچھ گیا ہے؟ آپ کی عمر ہوگئی ہے آپ کو کوئی بات کرنے کرنے والا نہیں ملتا نہ اس لیے مجھے بھی منع کرتے ہو۔ میں فطرتاً کھلی طبیعت ک مالک تھا اور بڑھ چڑھ کے بولنے والوں میں سے تھا۔ کہاں کیا ہوا،کیا نئی خبر ہے مجھے سب معلوم ہوتا۔یہاں تک تو بات ٹھیک تھی۔لیکن ابا جی کے ماتھے پہ  شکن تب آتی جب میں فوراً ہی وہ بات اپنے محلے والوں یا اپنے دوستوں کے ہاں شیئر کرنے چلا جاتا۔ اور وہ فوراً کہتے اوئے کجھ اپنے کول وی رکھیا کر اور میں بات سنی ان سنے کرتے ہوئے نکل جاتا۔

فطرتاً فنکار تھا یا نہیں،پتا نہیں۔ ہاں لیکن ثنا کی دلکش شخصیت مجھے اس دائرے میں دھکیلنے کا سبب ضرور بنی۔ وہ این سی اے کی طالبہ تھی اور ایک مکمل فنکار۔ مکمل فنکار اس لحاظ سے کہ اس کی ذات کے گرد حساسیت کے وہ دائرے تھے کہ جن کے جال میں فن کے تانے بانے نشوونما پاتے ہیں۔ اور پھر وہ نہایت خوبصورتی سے اس بات کا اپنے فن میں اظہا ر کرتی۔ میں نے بھی اس کے قریب ہونے کی خاطر فن کا راستہ اپنایا۔ لیکن بعد میں اس کے کٹھن پن کا احساس ہوا۔ حسوں کو جگانا اور ان سے کام لینا ایک مشکل کام تھا۔ کسی بھی شے کو کینوس میں اتارنے سے پہلے فنکار کو اسے اپنے اندر بھرنا ہوتا ہے۔ اور پھر آہستہ آہستہ نہایت احتیاط سے وہ اسے اپنے اندر سے باہر نکالتا ہے اور کینوس کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ یعنی پہلے خود کو بھرنا ہوتا ہے اور پھر خالی کرنا۔۔۔۔ جزبات،احساسات ہر شے کی تخلیق سے پہلے عروج پر ہوتے ہیں اورفنکار ایسے محسوس کرتا ہے جیسے اس کے دل پر بہت بڑا بوجھ ہو اور ہر بار تخلیق کے بعد ایک خالی پن کا احساس ہوتا ہے۔ اور پھر ایک نئ شے کی طلب اور نیا بوجھ۔۔۔۔  بیچارا آرٹسٹ اسی کشمکش میں پوری زندگی گزار دیتا ہے۔

 سفر طلب اور حصول کے درمیانی فاصلے کو کم کرنے کے دوران ہوتا ہے۔ نہ طلب سے پہلے کچھ ہوتا ہے اور نہ شے کے حصول کے بعد۔۔۔۔ اور اس سفر کی مشق کے لیے استعمال ہونے والا انسان ہے۔۔۔۔ میں ابا جی کی باتوں کو کبھی سمجھ نہیں پایا تھا لیکن اب سب کچھ لٹانے کے بعد وہ باتیں کچھ کچھ سمجھ میں آتی ہیں۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے زیادہ بولنے والا بندہ خالی رہ جاتا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہتے تھے کہ ادھر ڈالا برتن میں اور ادھر انڈیل دیا انسان کے پاس کیا بچا بھلا اور پھر خالی برتن ٹین کے ڈبے کی طرح کھڑکتا ہے۔ بچپن میں مجھے کھلونے اکٹھے کرنے کا بہت شوق تھا۔ ادھر کوئی نیا کھلونا دیکھا، حصول کی خواہش پیدا ہوِئی اور ادھر اس کو حاصل کرنے کے طریقے۔۔۔۔لیکن حاصل کرنے کے بعد اس کھلونے کے لیے وہ پہلے جیسی خواہش اور رغبت نہ رہتی اور چند دن بعد دل اچاٹ ہو جاتا اور پھر کسی نئے کھلونے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا۔ پھر ایک واقعہ یوں ہوا کہ مجھے خواہش کے پورا ہونے سے خوف آنے لگا۔ ہوا یوں کہ مجھے ایک کھلونا موٹر سا ئیکل بہت پسند آگئی اور میرے دل میں اس کو حاصل کرنے کی شدت کی خواہش پیدا ہوِئی لیکن تھی وہ کچھ مہنگی۔ ابا جی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اچھا سالگرہ والے دن لے دوں گا۔ سو تب سے میں سالگرہ والے دن کا انتظار کرنے لگا۔ اور روز سوچتا کہ اگر وہ موٹر سائیکل میرے پاس ہوتی تو کیسی چلتی۔ پھر سالگرہ والا دن بھی آیا اور مجھے موٹر سائیکل بھی مل گئی، چلائی بھی اور خوشی بھی ہوِئی لیکن جلد ہی اس سے رغبت بھی ختم ہو گئی۔ سارا سفر تو خواہش اور حصول تک کا تھا! اور تب سے مجھے خواہش کے پورا ہونے سے خوف آنے لگا۔

محبت کے معاملے بھی کچھ ایسا بدقسمت واقع نہیں ہوا تھا۔جسے چاہا شدت سے چاہا اور حاصل بھی کر لیا۔ ثنا ایک نہایت اچھی آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ایک اچھی بیوی بھی ثابت ہوئی تھی۔ لیکن پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ محبت میں وہ شدت نہیں رہی اور وقت گزرنے کے ساتھ خواہش بھی ماند پڑنے لگی۔ حتٰی کہ بات غلط فہمیوں سے بڑھ کر علیحدگی تک جا پہنچی۔ میں نے زیادہ کوشش بھی نہیں کی صفائی دینے کی اور اسے آزاد کر دیا۔ محبت کا چیک بھی کیش ہونے کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا!
شاید بات یہاں بھی صرف سفر کی ہی تھی!

میں اپنی ذات کو بھی یہاں پوری طرح کیش کرا چکا تھا اور اب ایک عام ناصر کمال سے ایک مشہور آرٹسٹ ناصر کمال بن چکا تھا۔ جو دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے فن کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ وہ جو ہر بات کو،ہر احساس کو اپنے فن کے زریعے بیان کرنے میں ماہر تھا۔ ہر پینٹنگ میں ایک انوکھا احساس اور تجسس بھرا ہوتا اور نہایت مہنگے داموں بکتی۔ لیکن ایک اصلی فنکار کو اپنے فن پارے سے انصاف کرنے کے لیے اور ایک خاص احساس کو اجاگر کرنے اور لوگوں تک پہنچانے کے لیے کن کن ریاضتوں  سے گزرنا پڑتا ہے وہ ایک فنکار ہی بہتر جا نتا ہے۔ میں ہر بات کو جانتا،سمجھتا،پرکھتا،اسے اپنے اندر سموتا اور کینوس پر اتار دیتا۔ بعض اوقات تو یہ بہت جلد ہو جاتا اور بعض اقات کسی شے کی روح تک جانے کے لیے مہینے لگ جاتے۔ ہر آٰغاز بھر پور ہوتا اور ہر انجام کے بعد وہی پرانا خالی پن۔۔۔۔۔۔ آج جو میں شہرت کی بلندیوں پر تھا مال و دولت سے مالا مال تھا  لیکن پھر بھی خالی تھا۔ جذبات،احساسات اور ریاضت فن پاروں میں بھر چکا تھا اور اس کے زریعے خود کو کیش کرا چکا تھا!               

Thursday, November 3, 2011

میں اور میں


میں اور میں

اس میں اور میں کا کھیل بڑا پرانا ہے سائرہ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کونسا میں ہوں۔ وہ جو میرے اندر ہے یا وہ جو اس دنیا کہ ساتھ رہ رہا ہے۔ وہ جو تمہارے سامنے کھڑا ہے یا وہ جو تمہارے سامنے کھڑے ہونے والے کے اندر پنپ رہا ہے۔ وہ جو تمہیں بڑا مطمئن نظر آتا ہے یا وہ جو ہر لمحے بےچین رہتا ہے۔ وہ جو دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہے یا وہ جو دنیا سے بھاگ رہا ہے۔

میں ایک میں اور میں میں بٹا ہوا انسان ہوں سائرہ۔۔۔۔۔ تم مجھ سے یوں محبت نہ کرو۔۔۔۔۔

میں تب تک ایک تھا جب تک ایک بچہ تھا۔ زہن میں اٹھنے والے معصومانہ سوالات چند لمحوں میں اٹھتے اور پھر کسی اور شوق کی نظر ہو جاتے۔ لیکن کانشیئسنیس کے بیدار ہوتے ہی میرِی ذات کئی ٹکڑوں میں بٹ گئ۔اتنے ٹکڑے کہ مجھے خود بھی اندازہ نہیں۔ اور تب سے اب تک میں خود کو جوڑنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہوں۔

یہاں بے پناہ تنوع ہے اور ہر شے دوئی میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر شے دوسری کو سہارا دیئے ہوے ہے۔ ایک کی موت دوسری کے وجود کا سبب ہے۔ کوئی ایک تنہا ایگزِسٹ ہی نہیں کر سکتی۔ اور یہ تنوع ہی میرے پاگل پن کا باعث ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ تم سب آخر کسی چیز کے ایک ہی رخ کو کیوں قبول کرتے ہو جبکہ اس کے دوسرے رخ کے بغیر تو اس کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ تم کہتی ہو دنیا میں اتنے برے انسان کیوں ہیں؟ میں کہتا ہوں اگر برے ہیں تو اچھے ہیں نہ۔۔۔۔دونوں کا وجود ایک دوسرے سے ہے۔ برا ختم ہو گا تو اچھا بھی ختم ہو جائے گا۔۔۔۔۔تم کہتی ہو مجھے سردیاں بہت پسند ہیں۔لیکن گرمی کے بغیر سردی کا تصور کیا ہو گا؟۔۔۔۔۔

میں دو پولز کے درمیان بٹا ہوا انسان ہوں۔ جو سرپٹ ایک پول سے دوسرے پول کی طرف بھاگتا ہے اور پھر دوسرے سے پہلے کی طرف آتا ہے۔ میں نہ فطرتاً نیک انسان ہوں نہ بد۔۔۔۔جب نیکی کے کنویں میں رہتے ہوئے کچھ وقت گزر جائے تو پھر جی متلانے لگتا ہے۔ اور دوسری طرف جب برائی کا احساس زہن پر بوجھ بننے لگے تو پھر واپس آتا ہوں پہلی طرف۔۔۔۔۔پتہ نہیں تم مجھے کیا سمجھتی ہو۔سمجھتی بھی ہو یا نہیں۔ بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ شائد میں تمہا ری توقعات پر پورا نہ اتر پاؤں کہ مجھے تو خود سے ہی فرصت نہیں۔۔۔۔۔اور پتہ نہیں مجھے ان ٹکڑوں کو اکھٹا کرنے اور اس زندگی کی تصویر کو جوڑنے میں کتنا وقت لگے۔۔۔۔۔۔۔

لیکن میں تمہارا ساتھ تو دے سکتی ہوں اس تصویر کو جوڑنے میں وقار۔۔۔۔۔اور کچھ نہیں تو چند پل ساتھ تو گزارے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔

 میں تمہیں روکوں گا نہیں۔۔۔۔۔۔میں تو بس یہ چاہتا تھا کہ تمہیں میرے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ رہے۔۔۔۔۔  

Saturday, September 24, 2011

سپردگی



کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ اندھیرے کسی دن مجھے اپنے ساتھ بہا لے جائیں گے۔ میں باہر کی روشنیوں سے بچتا پھرتا ہوں اور اندر مجھے یہ اندھیرے سانس نہیں لینے دیتے۔ تم،تم بھی تو اسی دنیا میں رہتی ہو۔ تم کیسے رہ لیتی ہو بھلا؟ کیا تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا؟ پہلے بہت فرق پڑتا تھا صاحب جی جب میں نے نیا نیا گھروں میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ہم چار بہنیں تھیں۔ میری ماں کبھی نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹیاں بھی اس کی طرح لوگوں کے گھروں میں کام کریں۔ وہ تو چاہتی تھی کہ ہم سب کی اچھے گھروں میں شادیاں ہو جائیں۔ پر آہستہ آہستہ وہ زیادہ کام کرنے کی وجہ سے بیمار پڑنے لگی اور گھر چھوٹنے لگے۔ خرچہ پورا نہیں ہوتا تھا۔ جب دال روٹی کے بھی لالے پڑنے لگے تو مجھے بھی ساتھ میں کام کرنا پڑا۔ اس پاپی پیٹ کی خاطر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔

بہت دنیا دیکھی ھے جی میں نے۔ یہ بڑے گھروں میں بسنے والے اپنے مکانوں میں سجاوٹ کے لیے لاکھوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں۔ رات کے وقت روشنیوں کا وہ انتظام ہوتا ہے کہ ان کے گھر رات کے وقت دن کی روشنی سے زیادہ چمکنے لگتے ہیں۔ پر صاحب جی ان کے دلوں میں اندھیرے ہی رہتے ہیں۔ صفائی بہت ہوتی ہے پر دل کی نہیں۔  سجاوٹ ہوتی ہے پر ذات کھنڈر رہتی ہے۔ کپڑوں کا بہت خیال رکھا جاتا ہے اور اس میں خود کو سب سے تہذیب یافتہ دکھایا جاتا ہے۔ لیکن ان کی درندگی اس بیچاری غریب سے چھپ نہیں سکتی جو بیچاری دو وقت کی روٹی کی خاطر ان کے گھر جاتی ہے اور ان کی ہوس خوردہ نگاہوں سے خود کو بچا نہیں سکتی اور اس کا ثابت گھر پہنچنا محال ہوتا ہے۔ ایک عورت کے لیے یہاں سب درندے ہیں اور ایک غریب کے لیے اس کا استحصال کرنے والے۔ یہاں سب کے اپنے اپنے گھاؤ ہیں جی۔۔۔۔۔۔

میرا اور آپ کا دکھ اس لحاظ سے ایک جیسا ہے کہ ہم دونوں گھاؤ زدہ ہیں۔۔۔۔۔اور پھر چوٹ اندر کی ہو یا باہر کی،چوٹ تو چوٹ ہوتی ہے نہ۔ میں باہر کی دنیا سے تلملا اٹھتی ہوں اور آپ اندر سے۔۔۔۔۔

کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے نجمہ، کہ جیسے میری طرف کئی لمبے لمبے اجسام کے سائے چلے آرہے ہوں اور وہ زبردستی مجھےاپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ مجھے اندھے سمندر میں دکھا دے دیں گے۔ کیا یہ صرف دماغ کا دھوکہ تو نہیں؟ کیا میں تمہیں زہنی بیمار لگتا ہوں؟ کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا کہ یہ تہزیب یافتہ روشنیاں صرف غریبوں کو گھائل کرنے کے لیے بنائی گئ ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب اندھے،بہرے،بے حس ہو چکے۔ میں،میں کچھ کرتا کیوں نہیں؟ آخر سکون کہاں ہے؟روشنی کہاں ہے؟ مجھے ڈر لگتا ہے خود سے کہ کہیں میری ذات ہی مجھ پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ میں خوفزدہ ہوں اس سے کہ کہیں میں بھی مسلسل اندھیرے میں رہنے کی وجہ سے اپنی بینائی نہ کھو بیٹھوں،کہیں میں بھی باقی سب کی طرح اندھا نہ ہو جاؤں۔۔۔۔۔۔۔

دیکھو صاحب جی زیادہ نہ سوچا کرو،اور پھر سوکھی سوچ تو انسان کو پریشانیوں میں ہی مبتلا کرتی ہے۔ بندہ تھوڑا تھوڑا اپنی استطاعت کے مطابق کام کرتا رہے تو ٹھیک رہتا ہے۔ کام نہ کرے تو بھی بے ایمانی ہوئی خدا کی دی ہو ئی جان میں، اور زیادہ کرنے کی سوچے تو بھی پورا نہیں پڑتا۔ میں بھی بڑی پریشان رہتی تھی،بات بات پر کڑھتی تھی۔ مجھے بھی دنیا بڑی کھلتی تھی۔ میں بھی اس زندگی سے بڑی تنگ تھی۔ پھر ایک دن مجھ پر بھید کھلا۔۔۔۔۔۔مسئلہ یہ تھا کہ میں نے خود کو پریشانیوں کے سپرد کیا ہوا تھا،اس دنیا کے سپرد،اس سوچ کے سپرد جو مجھے پریشان کرتی تھی۔ پھر میں نے خود کو اپنے اور اس دنیا کے بنانے والے کے سپرد کر دیا۔ اپنی پریشانیوں کو،اپنی سوچ کو،اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر دیا اور میرے سارے مسئلے حل ہو گئے۔ آپ بھی خود کو اپنے مالک کے سپرد کر دو تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔










Sunday, September 18, 2011

راستہ



دیکھو مائرہ سمجھنے کی کوشش کرو زندگی کی یہی حقیقت ھے۔ ہر شے چاہے وہ کتنی ھی دلفریب،پرکشش اور چارمنگ کیوں نہ ھو ایک دن اس کی چمک ماند پڑ جاتی ھے اور وہ پھیکی لگنے لگتی ھے۔ محبت کی خواہش بھی ھمیشہ نہیں رہنے والی۔۔۔۔

لیکن اس محبت کا کیا فراز؟ اس رشتے کا کیا؟ تم سب کچھ اپنی اس فلاسفی کی  نذر کر دینا چاہتے ھو؟

یہ کوئی فلاسفی نہیں ہے مائرہ۔ بلکہ ایک حقیقت ھے۔وہ حقیقت جس کا ادراک مجھے پہلے ھو گیا ھے اورلوگوں کو بعد میں ہوتا ہے۔ تمہیں بھی اس بات کا ادراک کرنا ہوگا۔ دیکھو ہر انسان میں بیک وقت کئی راستے  ھوتے ہیں۔ لیکن اسے اس بات کا اندازہ نہیں ہوپاتا کیونکہ وہ ایک وقت میں صرف ایک راستے پر فوکس کیے ہوتا ہے اور پھر جب ا سے انر سگنل ملتا ہے کہ بس بہت ہو گیا اور اب اس راستے پر چلا جائے تو وہ پھر سرپٹ دوڑتا ھے،اس اندرونی چابک کے زیر اثر،اس نئے راستے کے پیچھے۔۔۔۔اس چابک کی ضربیں اس قدر شدید ہوتی ہیں کہ اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا سوائے اپنے اس راستے کے۔۔۔۔۔۔۔

میرے اندر بھی کئی راستے ہیں مائرہ،کئی گھمن گھیریاں ہیں،کئی بھنور ہیں ۔ اور میں جانتا ہوں میں ایک راستہ زیادہ دیر تک اختیار نہیں کرسکتا۔یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ مجھے ان کئی راستوں پر چلتے ہوئے خود تک پہنچنا ہے۔ اور پھر محبت تو ایک خواہش، ایک جذبے کا نام ہے۔ کسی خواہش کو ساتھ رکھ کے تو انسان خوش رہ سکتا ہے۔لیکن اسی خواہش کے حصول کے بعد اس کا قیدی بن کر نہیں۔


میں محبت کا قیدی نہیں بن سکتا۔ مجھے تم سے محبت ہے۔ ھمیشہ رہے گی۔ لیکن میں اس میں قید نہیں ھو سکتا۔یہ میری فطرت میں نہیں ہے۔۔۔۔۔

یہ تغیر پیشہ انسان جب کسی خواہش کا اظہار کرتا ھے تو سمجھتا ہے کہ بس کسی طرح اب یہ چیزحاصل ہو جائے تو وہ ہمیشہ خوش رہے گا۔لیکن اس خواہش کے حصول کے بعد آہستہ آہستہ وہ کشش اور رغبت ماند پڑ جاتی ہے۔ اور پھر وہ کسی نئی خواہش کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ھے۔ کسی شے کا حصول انسان کو مستقل طورپرخوش نہیں رکھ سکتا۔۔۔۔۔۔محبت بھی انسان کو مستقل طور پر خوش نہیں رکھ سکتی۔ جب ایک خواہش پوری ہو جائے تو دوسری ضرورتیں سر پکڑنے لگتی ہیں۔ یہ کوئی ڈیسٹینیشن پوائنٹ نہیں ہے کہ جس پر آکر رکا جائے۔کسی شخص کو حاصل کر لینے کا مطلب محبت کا ابدی حصول نہیں ہوتا۔ دیکھو، ہر ایک کی ذات کے اندر کئی راستے ہوتے ہیں۔جو کہ اسے قدرت کی طرف سے ملے ہوتے ہیں چلنے کے لیے۔۔۔۔وہ چاہے بھی تو اپنے اندر کی آوازوں کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔۔۔۔اور مجھے بھی اسی راستے پر چلنا ہوگا۔۔۔۔۔۔            

اچھا چلتا ہوں اب۔۔۔۔اپنا خیال رکھنا۔اور چاہو تو مجھے خود غرض کہ لینا یا چاہو تو کچھ اور،چاہو تو اس رشتے کو ماضی کی کتاب کا ایک ورق سمجھ کر بند کر دینا یا چاہو تو حال کی ایک کڑی سمجھ کر زندہ رکھنا۔۔۔۔۔                           

Thursday, February 3, 2011

ہماری عادت


ہم عجیب لوگ ھیں۔حاجت کے پورا ھونے کے لیے منتیں مانگتے ھیں،چڑھاوے چڑھاتے ھیں۔فریاد کرتےھیں اس کے بندوں سے۔ لیکن اس سے نہیں۔ ھم اس مقصد کے لیے کئی میلوں کا فاصلہ طے کرتے ھیں۔ لیکن وہ جو ہمارے پاس کھڑا ھوتا ھے اس کے بارے میں کبھی سوچتے ھی نہیں! ھمیں اس کے بندوں کے پاس جا کر کھڑے ھونے اور اس سے مانگنے  کا سلیقہ تو خُوب آتا ھے لیکن اس کے پاس کھڑے ھونے کا نہیں۔ ھمیں مزاروں پر تو پتا ھوتا ھے کہ ھم کس کے پاس کھڑے ہیں لیکن اس کے پاس جاتے ھوئے اور اس کی عبادت کرتے ھوئے نہیں پتا ھوتا کہ ھم کس ہستی کے آگے کھڑے ھیں۔ ھم تو صرف عادتا“ عبادت کر رہے ھوتے ھیں۔ اور اس وقت ھمیں بس یہ ھوتا ھے کہ جلدی جلدی نماز ختم ھو۔ ھم قرآن پڑھتے ھیں ثواب لینے کے لیے نا کہ حکم جاننے اور اس پر عمل کرنے کے لیے۔ 

ھمیں اس کے بندوں کے پاس جاتے ھوئے تو یقین ہوتا ھے۔لیکن اس کے اوپر بھروسہ نہیں ھوتا۔ اس نے تو کتنی بار کہا ھے مجھ سے مانگو میں دوں گا۔لیکن ھمیں اس کے بندوں پر تو بھروسہ ھے اس پر نہیں۔ جب آپ کو اس پر یقین ہی نیہں ھے تو پھر آپ کی دعا کیسے پوری ھو گی۔ اور پھر آپ کہتے ھو جی ھمارے دعائیں پوری نہیں ھوتیں۔ او پہلے یقین تو کرو۔ گلے کرنے تم کو خوب آتے ھیں۔ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں "میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ھو تا ہوں" تو جیسا گمان ھو گا و یسا ھی ردعمل۔۔۔پہلے اس کے پاس جا کر تو دیکھو، اس پر بھروسہ کر کے تو دیکھو، اس سے مانگ کر تو دیکھو پھر کہیں اور جانا۔۔۔۔۔