Friday, November 4, 2011

خالی



میں اپنی ذات کے سارے چیک کیش کروا چکا تھا اور اب خالی ہاتھ ریت کے صحرا میں بیٹھا تھا۔ کچھ خالی رہ جانے کا غم تھا،کچھ تنہائی کا خوف اور کچھ اپنے کھو کھلے پن کی اذیت۔۔۔۔ ابا جی ہمیشہ کہتے تھے کہ نہ پتر اتنا زیادہ بولا نہ کر،نہیں تو خالی رہ جاَئے گا۔ تو تو اپنا سارا کچھ ہی کیش کروانے پے تلا ہوتا ہے کچھ اپنے لیے بھی رکھا کر۔ پر مجھے ابا جی کی یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی۔ میں کہتا لو بھلا یہ کیا بات ہوِئی۔ بولنے سے بھی بھلا کوئی خالی ہوا ہے اور کسی کا کچھ گیا ہے؟ آپ کی عمر ہوگئی ہے آپ کو کوئی بات کرنے کرنے والا نہیں ملتا نہ اس لیے مجھے بھی منع کرتے ہو۔ میں فطرتاً کھلی طبیعت ک مالک تھا اور بڑھ چڑھ کے بولنے والوں میں سے تھا۔ کہاں کیا ہوا،کیا نئی خبر ہے مجھے سب معلوم ہوتا۔یہاں تک تو بات ٹھیک تھی۔لیکن ابا جی کے ماتھے پہ  شکن تب آتی جب میں فوراً ہی وہ بات اپنے محلے والوں یا اپنے دوستوں کے ہاں شیئر کرنے چلا جاتا۔ اور وہ فوراً کہتے اوئے کجھ اپنے کول وی رکھیا کر اور میں بات سنی ان سنے کرتے ہوئے نکل جاتا۔

فطرتاً فنکار تھا یا نہیں،پتا نہیں۔ ہاں لیکن ثنا کی دلکش شخصیت مجھے اس دائرے میں دھکیلنے کا سبب ضرور بنی۔ وہ این سی اے کی طالبہ تھی اور ایک مکمل فنکار۔ مکمل فنکار اس لحاظ سے کہ اس کی ذات کے گرد حساسیت کے وہ دائرے تھے کہ جن کے جال میں فن کے تانے بانے نشوونما پاتے ہیں۔ اور پھر وہ نہایت خوبصورتی سے اس بات کا اپنے فن میں اظہا ر کرتی۔ میں نے بھی اس کے قریب ہونے کی خاطر فن کا راستہ اپنایا۔ لیکن بعد میں اس کے کٹھن پن کا احساس ہوا۔ حسوں کو جگانا اور ان سے کام لینا ایک مشکل کام تھا۔ کسی بھی شے کو کینوس میں اتارنے سے پہلے فنکار کو اسے اپنے اندر بھرنا ہوتا ہے۔ اور پھر آہستہ آہستہ نہایت احتیاط سے وہ اسے اپنے اندر سے باہر نکالتا ہے اور کینوس کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ یعنی پہلے خود کو بھرنا ہوتا ہے اور پھر خالی کرنا۔۔۔۔ جزبات،احساسات ہر شے کی تخلیق سے پہلے عروج پر ہوتے ہیں اورفنکار ایسے محسوس کرتا ہے جیسے اس کے دل پر بہت بڑا بوجھ ہو اور ہر بار تخلیق کے بعد ایک خالی پن کا احساس ہوتا ہے۔ اور پھر ایک نئ شے کی طلب اور نیا بوجھ۔۔۔۔  بیچارا آرٹسٹ اسی کشمکش میں پوری زندگی گزار دیتا ہے۔

 سفر طلب اور حصول کے درمیانی فاصلے کو کم کرنے کے دوران ہوتا ہے۔ نہ طلب سے پہلے کچھ ہوتا ہے اور نہ شے کے حصول کے بعد۔۔۔۔ اور اس سفر کی مشق کے لیے استعمال ہونے والا انسان ہے۔۔۔۔ میں ابا جی کی باتوں کو کبھی سمجھ نہیں پایا تھا لیکن اب سب کچھ لٹانے کے بعد وہ باتیں کچھ کچھ سمجھ میں آتی ہیں۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے زیادہ بولنے والا بندہ خالی رہ جاتا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہتے تھے کہ ادھر ڈالا برتن میں اور ادھر انڈیل دیا انسان کے پاس کیا بچا بھلا اور پھر خالی برتن ٹین کے ڈبے کی طرح کھڑکتا ہے۔ بچپن میں مجھے کھلونے اکٹھے کرنے کا بہت شوق تھا۔ ادھر کوئی نیا کھلونا دیکھا، حصول کی خواہش پیدا ہوِئی اور ادھر اس کو حاصل کرنے کے طریقے۔۔۔۔لیکن حاصل کرنے کے بعد اس کھلونے کے لیے وہ پہلے جیسی خواہش اور رغبت نہ رہتی اور چند دن بعد دل اچاٹ ہو جاتا اور پھر کسی نئے کھلونے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا۔ پھر ایک واقعہ یوں ہوا کہ مجھے خواہش کے پورا ہونے سے خوف آنے لگا۔ ہوا یوں کہ مجھے ایک کھلونا موٹر سا ئیکل بہت پسند آگئی اور میرے دل میں اس کو حاصل کرنے کی شدت کی خواہش پیدا ہوِئی لیکن تھی وہ کچھ مہنگی۔ ابا جی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اچھا سالگرہ والے دن لے دوں گا۔ سو تب سے میں سالگرہ والے دن کا انتظار کرنے لگا۔ اور روز سوچتا کہ اگر وہ موٹر سائیکل میرے پاس ہوتی تو کیسی چلتی۔ پھر سالگرہ والا دن بھی آیا اور مجھے موٹر سائیکل بھی مل گئی، چلائی بھی اور خوشی بھی ہوِئی لیکن جلد ہی اس سے رغبت بھی ختم ہو گئی۔ سارا سفر تو خواہش اور حصول تک کا تھا! اور تب سے مجھے خواہش کے پورا ہونے سے خوف آنے لگا۔

محبت کے معاملے بھی کچھ ایسا بدقسمت واقع نہیں ہوا تھا۔جسے چاہا شدت سے چاہا اور حاصل بھی کر لیا۔ ثنا ایک نہایت اچھی آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ایک اچھی بیوی بھی ثابت ہوئی تھی۔ لیکن پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ محبت میں وہ شدت نہیں رہی اور وقت گزرنے کے ساتھ خواہش بھی ماند پڑنے لگی۔ حتٰی کہ بات غلط فہمیوں سے بڑھ کر علیحدگی تک جا پہنچی۔ میں نے زیادہ کوشش بھی نہیں کی صفائی دینے کی اور اسے آزاد کر دیا۔ محبت کا چیک بھی کیش ہونے کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا!
شاید بات یہاں بھی صرف سفر کی ہی تھی!

میں اپنی ذات کو بھی یہاں پوری طرح کیش کرا چکا تھا اور اب ایک عام ناصر کمال سے ایک مشہور آرٹسٹ ناصر کمال بن چکا تھا۔ جو دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے فن کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ وہ جو ہر بات کو،ہر احساس کو اپنے فن کے زریعے بیان کرنے میں ماہر تھا۔ ہر پینٹنگ میں ایک انوکھا احساس اور تجسس بھرا ہوتا اور نہایت مہنگے داموں بکتی۔ لیکن ایک اصلی فنکار کو اپنے فن پارے سے انصاف کرنے کے لیے اور ایک خاص احساس کو اجاگر کرنے اور لوگوں تک پہنچانے کے لیے کن کن ریاضتوں  سے گزرنا پڑتا ہے وہ ایک فنکار ہی بہتر جا نتا ہے۔ میں ہر بات کو جانتا،سمجھتا،پرکھتا،اسے اپنے اندر سموتا اور کینوس پر اتار دیتا۔ بعض اوقات تو یہ بہت جلد ہو جاتا اور بعض اقات کسی شے کی روح تک جانے کے لیے مہینے لگ جاتے۔ ہر آٰغاز بھر پور ہوتا اور ہر انجام کے بعد وہی پرانا خالی پن۔۔۔۔۔۔ آج جو میں شہرت کی بلندیوں پر تھا مال و دولت سے مالا مال تھا  لیکن پھر بھی خالی تھا۔ جذبات،احساسات اور ریاضت فن پاروں میں بھر چکا تھا اور اس کے زریعے خود کو کیش کرا چکا تھا!               

Thursday, November 3, 2011

میں اور میں


میں اور میں

اس میں اور میں کا کھیل بڑا پرانا ہے سائرہ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کونسا میں ہوں۔ وہ جو میرے اندر ہے یا وہ جو اس دنیا کہ ساتھ رہ رہا ہے۔ وہ جو تمہارے سامنے کھڑا ہے یا وہ جو تمہارے سامنے کھڑے ہونے والے کے اندر پنپ رہا ہے۔ وہ جو تمہیں بڑا مطمئن نظر آتا ہے یا وہ جو ہر لمحے بےچین رہتا ہے۔ وہ جو دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہے یا وہ جو دنیا سے بھاگ رہا ہے۔

میں ایک میں اور میں میں بٹا ہوا انسان ہوں سائرہ۔۔۔۔۔ تم مجھ سے یوں محبت نہ کرو۔۔۔۔۔

میں تب تک ایک تھا جب تک ایک بچہ تھا۔ زہن میں اٹھنے والے معصومانہ سوالات چند لمحوں میں اٹھتے اور پھر کسی اور شوق کی نظر ہو جاتے۔ لیکن کانشیئسنیس کے بیدار ہوتے ہی میرِی ذات کئی ٹکڑوں میں بٹ گئ۔اتنے ٹکڑے کہ مجھے خود بھی اندازہ نہیں۔ اور تب سے اب تک میں خود کو جوڑنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہوں۔

یہاں بے پناہ تنوع ہے اور ہر شے دوئی میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر شے دوسری کو سہارا دیئے ہوے ہے۔ ایک کی موت دوسری کے وجود کا سبب ہے۔ کوئی ایک تنہا ایگزِسٹ ہی نہیں کر سکتی۔ اور یہ تنوع ہی میرے پاگل پن کا باعث ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ تم سب آخر کسی چیز کے ایک ہی رخ کو کیوں قبول کرتے ہو جبکہ اس کے دوسرے رخ کے بغیر تو اس کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ تم کہتی ہو دنیا میں اتنے برے انسان کیوں ہیں؟ میں کہتا ہوں اگر برے ہیں تو اچھے ہیں نہ۔۔۔۔دونوں کا وجود ایک دوسرے سے ہے۔ برا ختم ہو گا تو اچھا بھی ختم ہو جائے گا۔۔۔۔۔تم کہتی ہو مجھے سردیاں بہت پسند ہیں۔لیکن گرمی کے بغیر سردی کا تصور کیا ہو گا؟۔۔۔۔۔

میں دو پولز کے درمیان بٹا ہوا انسان ہوں۔ جو سرپٹ ایک پول سے دوسرے پول کی طرف بھاگتا ہے اور پھر دوسرے سے پہلے کی طرف آتا ہے۔ میں نہ فطرتاً نیک انسان ہوں نہ بد۔۔۔۔جب نیکی کے کنویں میں رہتے ہوئے کچھ وقت گزر جائے تو پھر جی متلانے لگتا ہے۔ اور دوسری طرف جب برائی کا احساس زہن پر بوجھ بننے لگے تو پھر واپس آتا ہوں پہلی طرف۔۔۔۔۔پتہ نہیں تم مجھے کیا سمجھتی ہو۔سمجھتی بھی ہو یا نہیں۔ بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ شائد میں تمہا ری توقعات پر پورا نہ اتر پاؤں کہ مجھے تو خود سے ہی فرصت نہیں۔۔۔۔۔اور پتہ نہیں مجھے ان ٹکڑوں کو اکھٹا کرنے اور اس زندگی کی تصویر کو جوڑنے میں کتنا وقت لگے۔۔۔۔۔۔۔

لیکن میں تمہارا ساتھ تو دے سکتی ہوں اس تصویر کو جوڑنے میں وقار۔۔۔۔۔اور کچھ نہیں تو چند پل ساتھ تو گزارے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔

 میں تمہیں روکوں گا نہیں۔۔۔۔۔۔میں تو بس یہ چاہتا تھا کہ تمہیں میرے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ رہے۔۔۔۔۔