Sunday, September 18, 2011

راستہ



دیکھو مائرہ سمجھنے کی کوشش کرو زندگی کی یہی حقیقت ھے۔ ہر شے چاہے وہ کتنی ھی دلفریب،پرکشش اور چارمنگ کیوں نہ ھو ایک دن اس کی چمک ماند پڑ جاتی ھے اور وہ پھیکی لگنے لگتی ھے۔ محبت کی خواہش بھی ھمیشہ نہیں رہنے والی۔۔۔۔

لیکن اس محبت کا کیا فراز؟ اس رشتے کا کیا؟ تم سب کچھ اپنی اس فلاسفی کی  نذر کر دینا چاہتے ھو؟

یہ کوئی فلاسفی نہیں ہے مائرہ۔ بلکہ ایک حقیقت ھے۔وہ حقیقت جس کا ادراک مجھے پہلے ھو گیا ھے اورلوگوں کو بعد میں ہوتا ہے۔ تمہیں بھی اس بات کا ادراک کرنا ہوگا۔ دیکھو ہر انسان میں بیک وقت کئی راستے  ھوتے ہیں۔ لیکن اسے اس بات کا اندازہ نہیں ہوپاتا کیونکہ وہ ایک وقت میں صرف ایک راستے پر فوکس کیے ہوتا ہے اور پھر جب ا سے انر سگنل ملتا ہے کہ بس بہت ہو گیا اور اب اس راستے پر چلا جائے تو وہ پھر سرپٹ دوڑتا ھے،اس اندرونی چابک کے زیر اثر،اس نئے راستے کے پیچھے۔۔۔۔اس چابک کی ضربیں اس قدر شدید ہوتی ہیں کہ اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا سوائے اپنے اس راستے کے۔۔۔۔۔۔۔

میرے اندر بھی کئی راستے ہیں مائرہ،کئی گھمن گھیریاں ہیں،کئی بھنور ہیں ۔ اور میں جانتا ہوں میں ایک راستہ زیادہ دیر تک اختیار نہیں کرسکتا۔یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ مجھے ان کئی راستوں پر چلتے ہوئے خود تک پہنچنا ہے۔ اور پھر محبت تو ایک خواہش، ایک جذبے کا نام ہے۔ کسی خواہش کو ساتھ رکھ کے تو انسان خوش رہ سکتا ہے۔لیکن اسی خواہش کے حصول کے بعد اس کا قیدی بن کر نہیں۔


میں محبت کا قیدی نہیں بن سکتا۔ مجھے تم سے محبت ہے۔ ھمیشہ رہے گی۔ لیکن میں اس میں قید نہیں ھو سکتا۔یہ میری فطرت میں نہیں ہے۔۔۔۔۔

یہ تغیر پیشہ انسان جب کسی خواہش کا اظہار کرتا ھے تو سمجھتا ہے کہ بس کسی طرح اب یہ چیزحاصل ہو جائے تو وہ ہمیشہ خوش رہے گا۔لیکن اس خواہش کے حصول کے بعد آہستہ آہستہ وہ کشش اور رغبت ماند پڑ جاتی ہے۔ اور پھر وہ کسی نئی خواہش کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ھے۔ کسی شے کا حصول انسان کو مستقل طورپرخوش نہیں رکھ سکتا۔۔۔۔۔۔محبت بھی انسان کو مستقل طور پر خوش نہیں رکھ سکتی۔ جب ایک خواہش پوری ہو جائے تو دوسری ضرورتیں سر پکڑنے لگتی ہیں۔ یہ کوئی ڈیسٹینیشن پوائنٹ نہیں ہے کہ جس پر آکر رکا جائے۔کسی شخص کو حاصل کر لینے کا مطلب محبت کا ابدی حصول نہیں ہوتا۔ دیکھو، ہر ایک کی ذات کے اندر کئی راستے ہوتے ہیں۔جو کہ اسے قدرت کی طرف سے ملے ہوتے ہیں چلنے کے لیے۔۔۔۔وہ چاہے بھی تو اپنے اندر کی آوازوں کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔۔۔۔اور مجھے بھی اسی راستے پر چلنا ہوگا۔۔۔۔۔۔            

اچھا چلتا ہوں اب۔۔۔۔اپنا خیال رکھنا۔اور چاہو تو مجھے خود غرض کہ لینا یا چاہو تو کچھ اور،چاہو تو اس رشتے کو ماضی کی کتاب کا ایک ورق سمجھ کر بند کر دینا یا چاہو تو حال کی ایک کڑی سمجھ کر زندہ رکھنا۔۔۔۔۔                           

1 comment:

  1. maria yeh kia likh dia hai?
    you have reached to a big big fact I ll not say philosphy but fact ,tum ne aik haqeeqat paa li hai seekh li hai dekh lia hai you all done with this and you are such a great writer I cant describe

    ReplyDelete