Wednesday, January 12, 2011

کھڑکی




کھڑکی





ٹپ ٹپ گرتی بوندوں کی آواز جب اس کے کانوں میں پڑی توا چانک یوں محسوس ھوا کہ جیسے صدیوں کی ریاضت اس سے اس ایک پل میں چھین لی گئ ہو!وہ جن لمحوں پر عرصے سے وقت،سوچ اور اجتناب کی ریت ڈالتا چلا آیا تھا تاکہ ان سے بچا جا سکے. یکدم سے اس جھکڑ نے وہ ریت ہٹا کر پھر سے وہی لمحے عیاں کردیئے تھے۔اور وھ اداسی وحشت اور غمزدگی کی ملی جلی کیفیت میں انھیں دیکھ رہا تھا۔


وقت۔۔۔۔آہ یہ کمبخت وقت کبھی پیچھا نہی چھوڑتا-ھمیشہ ایک تماشائی کی طرح انسان کے ساتھ رہتا ہے۔اور خاموشی کے ساتھ ہر شے کہ اپنے ساتھ محفوظ کرتا جاتا ہے۔آج پھر اس نے بوندوں کے سحر سے فائدہ اٹھا کر اس کے سامنے کچھ گزشتہ یادگار لمحوں کی فلم چلا دی تھی۔

جب وہ ہمیشہ اس لمحے کا انتظار کیا کرتا تھا۔اور اپنے ھمسفر یا شائد وہ جسے ھمسفر سمجھ بیٹھا تھاکہ ساتھ ہوتا تھا۔ اور پھر ان لمحوں کے ساتھ کچھ چلبلی،چھیڑ چھاڑ اور ہمیشہ یاد رہنے والی یادیں ہوتی تھیں۔ اس بارش کے لئے وہ ھمیشہ انتظار کیا کرتا تھا۔کچھ لمحوں کے لئے وہ ان یادوں میں کھو سا گیا۔ حتٰی کہ بجلی کی چمک اور بادلوں کی گڑگڑاہٹ نے اس سحر کو توڑا۔۔۔۔۔وہ تو وہیں کا وھیں کھڑا تھا۔۔۔۔ھمیشہ کی طرح تنہا۔۔۔ااگرچہ باہر ایک دنیا آباد تھی۔کہانیوں سے بھری دنیا۔۔۔۔۔آنسووٴں اور قہقہو ں میں ڈوبی دنیا۔۔۔۔۔لیکن اسے اس دنیا سے کیا لینا دینا تھا۔اسے اپنے ذات کے بکھیڑوں سے ہی فرصت نہیں تھی کہ وہ اس پر غور کرتا۔

وہ بچبن ہی سے ایسا تھا یا حالات کی وجہ سے ایسا تھا،پتہ نہیں۔لیکن ہاں اتنا ضرور کہا جا سکتا تھا کہ وہ کسی تلاش میں تھا۔اس کے اندر کچھ ایسی چیز تھی جو مسلسل اسے اکسائے رکھتی تھی۔اور اس نے اس کاسکون برباد کیا ہوا تھا۔ اس نے خوشی اور سکون کو باہر کی دنیا میں تلاش کر کے دیکھ لیا تھا۔ لیکن وہ سب عارضی ثابت ہوا تھا۔

  ہم اپنی ذات کی خوشی دوسروں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔اور جب دوسرے ہماری توقعات کے برعکس ردعمل کا اظہار کریں تو ہم مایوسیوں کےاندھیروں میں غوطے کھانا شروع کر دیتے ھیں۔اور پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دراصل جب ہم دوسروں پر انحصار کرنا شروع کر دیتے ھیں تو ہمارا عمل اور ردعمل دوسرے کی ذات کے عمل کے ساتھ وابستہ ہوتا ھے۔ اور جب زندگی کا ردعمل دوسروں کے عمل پر ہو تو ہم دوسروں کے رحم وکرم پر ہوتے ھیں۔خوشی اور غم کا کارن دوسرے بن جاتے ہیں ۔جو کہ ایک ناقابل بھروسہ ذریعہ ہے۔ اس لئے وہ خوشی جو دوسروں کے عمل پر منحصر ہو زیادہ دیر تک بھروسہ نھیں کیا جا سکتا۔ کچھ ایسا ہی اس کے ساتھ ہوا تھا۔وہ اس حقیقت سے واقف ہو چکا تھا۔ لیکن اگر خوشی اندر سے حاصل ہوتی تو وہ پھر اندر سے خوشی کیسے حاصل کرتا جہاں پر صرف اندھیرے پل رہے تھے۔

جب بارش کچھ تھمی تو سورج پھر بادلوں کی اوٹ سے اپنا چہرہ دکھانے لگا۔اور دن ایک بار پھر سورج کی روشنی میں چمکنے لگا۔آفان کو کچھ کتابیں لینا تھی جناح لا ئبریری سے۔لہذا اس نے لارنس گارڈن جانے کا سوچا۔اب یہ کتابیں ہی اس کا مسکن تھی۔جن کے زریعے وہ اپنی منزل کی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کرتا۔

یہ باغوں میں بھی طرح طرح کے لوگ ھوتے ھیں۔اداس،غمگین،الجھے ہوئے،بچھڑے ھوئے،خوش اور آزاد وغیرہ وغیرہ۔ لارنس پہنچنے پر اسے یہ احساس ھوا۔ "یہ لوگ اتنے خوش اور آزاد کیسے ہوتے ہیں؟" اس کا خود سے اکثر یہ سوال ہوتا۔جب وہ لوگوں کو خوش ہوتے دیکھتا تو اسے ایک جلن سے محسوس ہوتی۔ ایسے ہی خوش ،آزاد اور مطمئن چہروں میں سے ایک چہرہ مالی بابا رمضان کا ھوتا۔وہ عمر کے لحاظ سے ساٹھ برس کے قریب تھے۔ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک پدرانہ شفقت موجود ہوتی۔ اور ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے وہ بہت لمبی مسافت طے کر چکے ھیں۔ آفان کی اکثران سے سلام دعا ہو جاتی تھی۔لیکن زیادہ بات چیت کبھی نہیں ھوئی۔

"کیسے ہو بیٹا آفان ؟" آج اچانک ان کی ہی نظر پہلے اس پر پڑ گئی تھی۔لائبریری کے اکثر چکر لگانے کی وجہ سے وہ اسے جانتے تھے۔"جی میں ٹھیک ھوں۔آپ سنائیں کیسے ھیں؟" "میں بھی بلکل ٹھیک ھوں اللہ کے فضل و کرم سے۔لیکن تم ٹھیک نہیں لگتے؟" "میں تو ھمیشہ سے ہی ایسا ھوں جی۔" اس نے قدرے چڑ کر کہا۔ لوگوں سے زیادہ بات چیت کرنا اسے پسند نہ تھا۔ "او پتر تیرا یہی تو مسئلہ ھے"۔مالی بابا نے کہا۔یکدم سے اسے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے اس کے اندر جھانک لیا ھو۔  

"تو نے باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کو بند کر دیا ھے اور اپنے اندر مایوسی کے اندھیرے بسا لیئے ھیں۔۔۔۔۔او پتر جب کسی کمرے کو باہر کی ہوا نہیں لگتی نہ تو اس کے اندر جالے لگنا شروع ہو جاتے ھیں۔اور جب اس کی زیادہ دیر تک صفائی نہ کی جائے تو گردوغبار کی وجہ سے اس کی اصل شکل دیکھنا بڑا مشکل ہو جاتا ھے۔تیری ذات کے اندر بھی جالے لگ چکے ھیں۔۔۔۔۔او تو باہر والی کھڑکی کھولے گا، اپنے اندر امید کی کچھ روشنی ڈالے گا تو تبھی اپنی ذات کے جالے صاف کر سکے گا نہ،اور تبھی اپنے اوپر کام کر سکے گا ۔ کبھی اندھیرے میں بھی کام ھو تا ھے بھلا؟ ہم سمجھتے ھیں کہ خود کو اپنے اندر بند کرنے اور دنیا سے کٹ کر رہنے سے ہی خدا مل سکتا ھے -اس لیے ہم باہر کی طرف کھلنے والی ساری کھڑکیاں بند کر دیتے ھیں۔اور سمجھتے ھیں کہ اب ہمیں اپنی منزل مل جائے گی،لے دس مینوں۔۔۔۔۔کبھی راستے پر چلنے کے بغیر بھی منزل ملتی ہے؟ اور راستہ تو باہر سے اندر کو جاتاہے۔اندر سے اندر کو نہیں۔۔۔۔۔اور وہ تو ہر جگہ بیٹھا ہے یار۔۔۔۔ہر راستہ اسی کی طرف جاتا ھے۔۔۔۔۔بات خالی سمجھنے کی ھے۔اور یہ سمجھنا ہی ہمیں ہماری منزل تک لے جاتا ہے۔خود اس نے اپنی کتاب میں کتنی بار دعوت دی ہے۔ "تو کیا تم غور نہیں کرتے؟۔۔۔۔اور تم دیکھتے نہیں۔۔۔۔۔اور اس میں نشانیاں ہیں اہل عقل کے لیے" ۔اور اگر سارے راستے دنیا سے کٹ کر اندر سے اندر کی طرف جاتے تو وہ باہر دنیا کو دیکھنے کی دعوت کیوں دیتا؟

اس لیے کہ وہ اس کائنات کے ذرے ذرے میں آپ موجود ھے! یہ سارے جلوے اسی کے ہیں۔۔۔۔۔۔تو اس کائنات کو دیکھ اور اس پر غور کر۔۔۔۔۔اپنی ذات کی باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں کھول۔۔۔۔۔۔اور ہاں اس کائنات کی جو سب سے اہم چیز ھے وہ ہے انسان۔کبھی ان کو دکھ نہ دئیں۔اور ان سے محبت کر جیسا کہ ہمارے سوہنے نبی کریم نے فرمایا ھے۔"اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ایک ماں سے ستر گناہ زیادہ محبت کرتا ھے۔"  تو بس تو بھی ان سے محبت کر، ان کا خیال رکھ اور ان کے کام آ جن سے وہ محبت کرتا ھے۔منزل تک آپ ہی پہنچ جائیں گا"۔ 

"لے ہن مینوں اجازت دے۔"مالی بابا کے آخری الفاظ سن کر وہ اپنی دنیا میں واپس آیا جو کہ کافی دیر سے ان کی باتوں میں کھو گیا تھا۔ ان کی باتیں سن کر اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس کے دل ودماغ کی ساری کھڑکیاں کھل گئی ہوں اور ساری گتھیاں سلجھ گئ ہوں۔ جب وہ یہاں آیا تھا تو اس کا دل منوں بھاری اور بوجھل تھا۔لیکن جاتے ہوئے وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔


1 comment:

  1. What can I say maria my maria iqbal I don't have words for what you wrote Its something I can just feel I can connect I can live but I can't comment over.aftr reading this I got goose bumps truely Iss ko parh kar rongate khareho jate hain yeh tum ne kia likh dia hai,,its too great to be just comment over.

    ReplyDelete