Wednesday, January 26, 2011

فطرت ، بھوک ، رزق اور ذہنی ارتقا

 

فطرت،بھوک، رزق اور زہنی ارتقا

 

 

ان موجوں کی طرح انسان کی بھی عجیب زندگی ھے۔یہ بھی ھر لمحے اضطراب میں رہتی ھیں۔ ہر لمحے کی تڑپ انہیں چلتے رہنے پر مجبور کرتی ھی۔آتی ھیں،ساحل سے ٹکراتی ھیں اور پھر لوٹ جاتی ھیں۔اور پھر یہی چکر چلتا ھے۔اسی طرح انسان بھی ہر لمحے بےچین رہتا ھے۔ہم سب فطرتاٌ بےچین طبیعت کے مالک ھیں۔اور یہی بے چینی ھماری اکساہٹ،رغبت اور رجحان کا نتیجہ بنتی ھے۔ھم اس بےچینی کو ختم کرنے کے لئےمختلف ذرائع ڈھونڈتے ھیں،مختلف مشاغل اپناتے ھیں۔صرف اپنے اندر کو باہر لانے کے لئے۔۔۔۔اپنے اندر سے ملنے کے لئے۔۔۔۔خود کو مطمئن کرنے کے لئے۔۔۔۔۔ 

ذہنی ارتقا کا حصول انسان کے لیے بھوک کا باعث ھے۔اسے ذہنی ارتقا حاصل کرنا ہوتا ھے کیونکہ وہ اس کی ضرورت ھے خود کو مطمئن کرنے کی۔اور جب وہ اس کے حصول میں جت جاتا ہے تو وہی ایک طرح کی بھوک بن جاتی ھے۔اسے ذہنی ارتقا حاصل کرنا ہوتا ھے کیونکہ وہ  تواس کی فطرت کا لازمی حصہ ھے۔اور کیونکہ ہر ایک کی فطرت الگ ھے تو پھر بھوک بھی مختلف قسم کی ہوتی ھے۔کوئی پیسے کا بھوکا ہوتا ھے،کوئی خود کو بہت آگے لے جانا چاہتا ھے،کوئی فنکاروں میں اپنا نام پیدا کرنا چاہتا ھے،کسی کو بہت بڑا بزنس مین بننا ھے،کسی کو اپنے ملک اور قوم کے لئے بہت کام کرنا ھے، کسی کو لیڈر بننا ھے،کسی کو جنگجو بننا ھے،کسی کو علم کی پیاس ھے اور کسی کو خود سے جیتنا ھے! 

اس لئے رزق صرف وہ نہیں ہوتا کہ دو وقت کا کھانا،بلکہ ہر وہ شے رزق ھے جو رب تعالٰی نے آپ کو بہتر محسوس کرانے کے لئے بنائی ھے۔حسن آنکھوں کا رزق ھے،موسیقی کانوں کا رزق ھے،خوشبو ناک کا رزق ھے اور ہوا آپ کی سانوں کا رزق ھے۔ اور ان سب چیزوں سے حاصل ھونے والی آسودگی اور محبت آپ کی روح کا رزق ھے۔سوچیئے اگر آپ یہ سب حاصل یا محسوس نہ کر پائیں تو کیا آپ خود کو مکمل طور پر بہتر محسوس کر پائیں گے؟ جب ہم وہ چیز حاصل کرتے ھیں جسے ھم پسند کرتے ھیں تو ہمارے اندر مثبت احساس پیدا ہوتا ھے۔ہم خود کو بہتر محسوس کرتے ھیں اور اپنے اندر ایک انرجی محسوس کرتے ھیں۔یہی انرجی ہمیں خود کو بہتر محسوس کرواتی ھے۔۔اور یہ خود کو بہتر محسوس کرنا ہی ھمارے ذہنی ارتقا کا حصول ھے۔ لہٰزا یہ فطرت ، بھوک ، رزق اور ذہنی ارتقا سب آپس میں جڑے ھوئے ہیں۔جن کے ملے سے ایک انسان وجود میں آتا ھے۔ تڑپتا ھوا، اضطراب کا مارا ہوا اور اپنے رزق کی تلاش میں پھرتا ھوا۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment