تم جو کہتے تھے کہ میں آزاد ہوں
تم تو اپنی ہی ذات میں قید نکلے
اپنی ہی خواہشات کے اسیر نکلے
اپنی ہی دنیا کے قیدی نکلے
خود پیدا کردہ زنجیروں کے باسی نکلے
وہ کہاں گیا تمہارا آزادی کا دعوی؟
قصور تمہارا نہیں
قید تو ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ھے
ہم قید کر دیئے گئے ہیں
ازل سے اپنی ذات میں بند کر دیئے گئے ھیں
ہم آزاد ہو ہی نہیں سکتے
ہم اپنی فطرت میں قید کر دیئے گئے ھیں
اور فطرت سے کبھی آزاد نہیں ہوا جاتا!
بالکل ھم قید کر دیے گیے ھیں۔ لیکن اس قیدخانے کے جیلر بھی ھم ھیں۔
ReplyDeleteZindagi to her jaga hai,andar bhi or bahir bhi...
ReplyDelete