Wednesday, January 26, 2011

فطرت ، بھوک ، رزق اور ذہنی ارتقا

 

فطرت،بھوک، رزق اور زہنی ارتقا

 

 

ان موجوں کی طرح انسان کی بھی عجیب زندگی ھے۔یہ بھی ھر لمحے اضطراب میں رہتی ھیں۔ ہر لمحے کی تڑپ انہیں چلتے رہنے پر مجبور کرتی ھی۔آتی ھیں،ساحل سے ٹکراتی ھیں اور پھر لوٹ جاتی ھیں۔اور پھر یہی چکر چلتا ھے۔اسی طرح انسان بھی ہر لمحے بےچین رہتا ھے۔ہم سب فطرتاٌ بےچین طبیعت کے مالک ھیں۔اور یہی بے چینی ھماری اکساہٹ،رغبت اور رجحان کا نتیجہ بنتی ھے۔ھم اس بےچینی کو ختم کرنے کے لئےمختلف ذرائع ڈھونڈتے ھیں،مختلف مشاغل اپناتے ھیں۔صرف اپنے اندر کو باہر لانے کے لئے۔۔۔۔اپنے اندر سے ملنے کے لئے۔۔۔۔خود کو مطمئن کرنے کے لئے۔۔۔۔۔ 

ذہنی ارتقا کا حصول انسان کے لیے بھوک کا باعث ھے۔اسے ذہنی ارتقا حاصل کرنا ہوتا ھے کیونکہ وہ اس کی ضرورت ھے خود کو مطمئن کرنے کی۔اور جب وہ اس کے حصول میں جت جاتا ہے تو وہی ایک طرح کی بھوک بن جاتی ھے۔اسے ذہنی ارتقا حاصل کرنا ہوتا ھے کیونکہ وہ  تواس کی فطرت کا لازمی حصہ ھے۔اور کیونکہ ہر ایک کی فطرت الگ ھے تو پھر بھوک بھی مختلف قسم کی ہوتی ھے۔کوئی پیسے کا بھوکا ہوتا ھے،کوئی خود کو بہت آگے لے جانا چاہتا ھے،کوئی فنکاروں میں اپنا نام پیدا کرنا چاہتا ھے،کسی کو بہت بڑا بزنس مین بننا ھے،کسی کو اپنے ملک اور قوم کے لئے بہت کام کرنا ھے، کسی کو لیڈر بننا ھے،کسی کو جنگجو بننا ھے،کسی کو علم کی پیاس ھے اور کسی کو خود سے جیتنا ھے! 

اس لئے رزق صرف وہ نہیں ہوتا کہ دو وقت کا کھانا،بلکہ ہر وہ شے رزق ھے جو رب تعالٰی نے آپ کو بہتر محسوس کرانے کے لئے بنائی ھے۔حسن آنکھوں کا رزق ھے،موسیقی کانوں کا رزق ھے،خوشبو ناک کا رزق ھے اور ہوا آپ کی سانوں کا رزق ھے۔ اور ان سب چیزوں سے حاصل ھونے والی آسودگی اور محبت آپ کی روح کا رزق ھے۔سوچیئے اگر آپ یہ سب حاصل یا محسوس نہ کر پائیں تو کیا آپ خود کو مکمل طور پر بہتر محسوس کر پائیں گے؟ جب ہم وہ چیز حاصل کرتے ھیں جسے ھم پسند کرتے ھیں تو ہمارے اندر مثبت احساس پیدا ہوتا ھے۔ہم خود کو بہتر محسوس کرتے ھیں اور اپنے اندر ایک انرجی محسوس کرتے ھیں۔یہی انرجی ہمیں خود کو بہتر محسوس کرواتی ھے۔۔اور یہ خود کو بہتر محسوس کرنا ہی ھمارے ذہنی ارتقا کا حصول ھے۔ لہٰزا یہ فطرت ، بھوک ، رزق اور ذہنی ارتقا سب آپس میں جڑے ھوئے ہیں۔جن کے ملے سے ایک انسان وجود میں آتا ھے۔ تڑپتا ھوا، اضطراب کا مارا ہوا اور اپنے رزق کی تلاش میں پھرتا ھوا۔۔۔۔۔۔

میری قوم کا ایک عام انسان




امیدکے دیئے پر جلتابجھتاانسان
 
زندہ رہنے کی کوششوں میں تھکا انسان
 
دنیا کی رنگینیوں سے سہما انسان 

اپنے ارد گرد سے تنگ آیا انسان
 
زندگی کی دوڑ سے ہارا انسان
 
اپنے آپ سے الجھا،بےبس انسان 

میری قوم کا ایک عام انسان!

عکسی


 


وہ وقت کو لمحوں میں قید کرنے کا فن جانتی تھی۔ہمارا المیہ یہ ھے کہ ہم زندگی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اوراسی تلاش میں طےشدہ وقت ختم ہو جاتا ہے۔لیکن وہ زندگی کو جیتی تھی۔وہ شکایتوں کے فن سے نا آشنا تھی کہ ہم جیسے لوگ تو اس کے سوا کچھ کرتے ہی نھیں۔وہ دکھنے میں ایک لاابالی سی لڑکی تھی۔لاابالی اس طرح کہ اسے نئی چیزیں کرنے کا خوف نھیں تھا۔وہ لوگوں اور نئی سرگرمیوں میں داخل ہونے سے خوفزدہ نھیں ہوتی تھی۔لھٰزا خود میں آزاد تھی۔ورنہ ایک مڈل کلاس آدمی نے تو خود کو ایسی بندشوں میں جکڑا ہوتا ہے کہ اس کی خود پر عائد کردہ پابندیاں اور جھجک ہی اس کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔وہ جینے کا فن جانتی تھی اس لئے وقت اس سے کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔ شائد وقت سے یہ برداشت نہ ہو پایا کہ کوئی اسے مات دے دے اس لئے اس نے اسے اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔وہ لمحوں میں جینے کی عادی تھی اس لئے ہر لمحہ اس کے لئے ایک یادگار بن کر گزرتا۔اور یہی زندگی جینے کا اصلی فن ہے۔کہ ہم لوگ تو زندگی گزارتے ہیں لیکن وہ زندگی جیتی تھی۔اور یہی ہم میں اور اس میں فرق ہے۔اور اسی لحاظ سے وہ منفرد تھی۔

انسان


تم جو کہتے تھے کہ میں آزاد ہوں

تم تو اپنی ہی ذات میں قید نکلے

اپنی ہی خواہشات کے اسیر نکلے

اپنی ہی دنیا کے قیدی نکلے

خود پیدا کردہ زنجیروں کے باسی نکلے

وہ کہاں گیا تمہارا آزادی کا دعوی؟

قصور تمہارا نہیں

قید تو ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ھے

ہم قید کر دیئے گئے ہیں

ازل سے اپنی ذات میں بند کر دیئے گئے ھیں

ہم آزاد ہو ہی نہیں سکتے

ہم اپنی فطرت میں قید کر دیئے گئے ھیں

اور فطرت سے کبھی آزاد نہیں ہوا جاتا!

اے کاش کہ میں آزاد پنچھی ہوتا


اے کاش کہ میں آزاد پنچھی ہوتا


ہواوٴں میں اڑنا میرا مقدر ہوتا


بےفکری کے مزے لوٹنا میری زندگی ہوتا


تضاد سے پاک میرے خیال ہوتے


نفرت سے عاری میرا دل ہوتا



علم کا مجھ پر بوجھ نہ ھوتا



سوچ کی مجھ پر وحشت نہ ہوتی



زندگی اپنی فکر کے جھمیلوں میں نہ پڑتی



سنگیت اپنے فضاوٴں میں بکھیرتا



نتائج سے عاری میرا ذھن ہوتا



اے کاش کہ میں آزاد پنچھی ہوتا

ڈائری سے ایک ورق


انسان۔۔۔۔مقام۔۔۔۔مقصد۔۔۔انا۔۔۔۔کوشش۔۔۔۔جذبات۔۔۔۔سب آپس میں جڑے ھوئے ھیں۔ انسان اور مقصد کی کھینچاتانی تو اس کی پیداٴش کے بعد ہی سے شروع ہوجاتی کبھی مقصد انسان کو اپنی طرف راغب کرتا ہےاور کبھی انسان اس کی طرف چلا جاتا ہے۔بس یوں سمجھ لیجیے کہ کائنات کا ایک لاذمی عمل شروع ہو جاتا ہے۔کیونکہ یہ سب انفرادی مقاصد مل کر کائنات کے اجتماعی مقصدکی طرف عمل پیرا ہوتے ہیں۔لہٰذا اگر کوئی انفرادی شخص اپنا کام ٹھیک سے نہیں کریگا تو یہ بلاواسطہ کائنات کے مفصدپر اثراندازہوگا۔یعنی پھر قدرت کائنات کے اجتماعی مقصد کے حصول کے لئےانفرادی طور پر لوگوں سے کام لازمی کروائے گی۔مطلب ایک شخص کو جس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہےوہ لازمی طور پر کر کے ہی اس دنیا سے رخصت ہوگا۔ایسا نہیں ہوگا کہ ایک شخصکو اللہ تعالٰی نے کسی کام کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ اسے کئے بغیر رخصت ھو جائے۔۔۔۔قدرت کے اپنے قانون ہیں جو اس کائنات پر عمل پیرا ہیں اور ہر کوئی اپنا کام کر رہا ھے۔اگر ایسا سوچا جائے کہ قدرت نے مجھے جس کام کے لئے پیدا کیاہے وہ مجھ سے وہ کام لے کر ہی رہے گاتو سارے مسئلے ہی حل ہوجاتے ہیں۔نہ کوئی اینگزائٹی نہ ڈپریشن اور نہ کچھ اور اس قسم کا مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ آخر انا کیا چیز ہے؟شاید انسانوں کاخودکاپیداکردہ دل، ذہن اور سوچ کے گرد ایک حصار۔۔۔۔۔۔جس سے وہ باہر نکل نہیں سکتے۔۔۔۔یا پھر وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس حصارکےباہر قدم رکھنے سےوہ جل جائیں گے۔انسان اس حصار کے اندر ایک خاص قسم کی سوچ کے ساتھ رہتا ہےاوراسے لگتاھے کہ یہی ٹھیک ھے۔اور جو اس دائرے سے باہر ھے وہ سب غلط ھے۔۔۔۔۔خود کی بنائی ہوئی روایتیں،خود کے بنائے ھوئے قائدےاور اصول۔۔۔۔یعنی خودکی بنائی ہوئی زنجیریں جس میں وہ بڑےشوق سے رہنا پسند کرتا ھے!اور ان زنجیروں کے باہر وہ خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ھے! دوسرے لفظوں میں یہ ایک طرح کاپاگل پن بھی کہا جا سکتا ہے!درحقیقت انسان کو لگتاہے کہ وہ اگر اس حصار کے اندر رہے گا تو بڑے اعلٰی مقام پر فائز رہے گا۔اور اگر اس سے باہر آئیگا تو اپنے مقام اور رتبے سے گر جائے گا۔یعنی یہ اعلٰی مقام سوچ بھی انا پرستی میں اضافے کا موجب ھے۔جاہل انسان پہلے تو حدبندیاں کرتا ہے اور پھر اسے توڑنے کی کوشش کرتا ھے۔ کہیں ٹک کر سکون سے ایک جگہ بیٹھ نھیں سکتا۔اور بیٹھے بھی کیسے تغیر تو انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا ھے۔اب اگر وہ سکوت کی آرزو بھی کرے تو اسے خالق کائنات سے یہ جواب ملتا ھے کہ اے انسان کیا تو میرے برابر ہو نا چاہتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔سو مجبوری ھے انسان کو تو ایسے ہی رہنا پڑیگا۔اب چاہے جیسی مرضی زندگی گزارے۔یہ تو انسان پر منحصر ہے کہ وہ کیا پسند کرتا ہے اپنے لئے۔۔۔۔۔

Wednesday, January 12, 2011

کھڑکی




کھڑکی





ٹپ ٹپ گرتی بوندوں کی آواز جب اس کے کانوں میں پڑی توا چانک یوں محسوس ھوا کہ جیسے صدیوں کی ریاضت اس سے اس ایک پل میں چھین لی گئ ہو!وہ جن لمحوں پر عرصے سے وقت،سوچ اور اجتناب کی ریت ڈالتا چلا آیا تھا تاکہ ان سے بچا جا سکے. یکدم سے اس جھکڑ نے وہ ریت ہٹا کر پھر سے وہی لمحے عیاں کردیئے تھے۔اور وھ اداسی وحشت اور غمزدگی کی ملی جلی کیفیت میں انھیں دیکھ رہا تھا۔


وقت۔۔۔۔آہ یہ کمبخت وقت کبھی پیچھا نہی چھوڑتا-ھمیشہ ایک تماشائی کی طرح انسان کے ساتھ رہتا ہے۔اور خاموشی کے ساتھ ہر شے کہ اپنے ساتھ محفوظ کرتا جاتا ہے۔آج پھر اس نے بوندوں کے سحر سے فائدہ اٹھا کر اس کے سامنے کچھ گزشتہ یادگار لمحوں کی فلم چلا دی تھی۔

جب وہ ہمیشہ اس لمحے کا انتظار کیا کرتا تھا۔اور اپنے ھمسفر یا شائد وہ جسے ھمسفر سمجھ بیٹھا تھاکہ ساتھ ہوتا تھا۔ اور پھر ان لمحوں کے ساتھ کچھ چلبلی،چھیڑ چھاڑ اور ہمیشہ یاد رہنے والی یادیں ہوتی تھیں۔ اس بارش کے لئے وہ ھمیشہ انتظار کیا کرتا تھا۔کچھ لمحوں کے لئے وہ ان یادوں میں کھو سا گیا۔ حتٰی کہ بجلی کی چمک اور بادلوں کی گڑگڑاہٹ نے اس سحر کو توڑا۔۔۔۔۔وہ تو وہیں کا وھیں کھڑا تھا۔۔۔۔ھمیشہ کی طرح تنہا۔۔۔ااگرچہ باہر ایک دنیا آباد تھی۔کہانیوں سے بھری دنیا۔۔۔۔۔آنسووٴں اور قہقہو ں میں ڈوبی دنیا۔۔۔۔۔لیکن اسے اس دنیا سے کیا لینا دینا تھا۔اسے اپنے ذات کے بکھیڑوں سے ہی فرصت نہیں تھی کہ وہ اس پر غور کرتا۔

وہ بچبن ہی سے ایسا تھا یا حالات کی وجہ سے ایسا تھا،پتہ نہیں۔لیکن ہاں اتنا ضرور کہا جا سکتا تھا کہ وہ کسی تلاش میں تھا۔اس کے اندر کچھ ایسی چیز تھی جو مسلسل اسے اکسائے رکھتی تھی۔اور اس نے اس کاسکون برباد کیا ہوا تھا۔ اس نے خوشی اور سکون کو باہر کی دنیا میں تلاش کر کے دیکھ لیا تھا۔ لیکن وہ سب عارضی ثابت ہوا تھا۔

  ہم اپنی ذات کی خوشی دوسروں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔اور جب دوسرے ہماری توقعات کے برعکس ردعمل کا اظہار کریں تو ہم مایوسیوں کےاندھیروں میں غوطے کھانا شروع کر دیتے ھیں۔اور پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دراصل جب ہم دوسروں پر انحصار کرنا شروع کر دیتے ھیں تو ہمارا عمل اور ردعمل دوسرے کی ذات کے عمل کے ساتھ وابستہ ہوتا ھے۔ اور جب زندگی کا ردعمل دوسروں کے عمل پر ہو تو ہم دوسروں کے رحم وکرم پر ہوتے ھیں۔خوشی اور غم کا کارن دوسرے بن جاتے ہیں ۔جو کہ ایک ناقابل بھروسہ ذریعہ ہے۔ اس لئے وہ خوشی جو دوسروں کے عمل پر منحصر ہو زیادہ دیر تک بھروسہ نھیں کیا جا سکتا۔ کچھ ایسا ہی اس کے ساتھ ہوا تھا۔وہ اس حقیقت سے واقف ہو چکا تھا۔ لیکن اگر خوشی اندر سے حاصل ہوتی تو وہ پھر اندر سے خوشی کیسے حاصل کرتا جہاں پر صرف اندھیرے پل رہے تھے۔

جب بارش کچھ تھمی تو سورج پھر بادلوں کی اوٹ سے اپنا چہرہ دکھانے لگا۔اور دن ایک بار پھر سورج کی روشنی میں چمکنے لگا۔آفان کو کچھ کتابیں لینا تھی جناح لا ئبریری سے۔لہذا اس نے لارنس گارڈن جانے کا سوچا۔اب یہ کتابیں ہی اس کا مسکن تھی۔جن کے زریعے وہ اپنی منزل کی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کرتا۔

یہ باغوں میں بھی طرح طرح کے لوگ ھوتے ھیں۔اداس،غمگین،الجھے ہوئے،بچھڑے ھوئے،خوش اور آزاد وغیرہ وغیرہ۔ لارنس پہنچنے پر اسے یہ احساس ھوا۔ "یہ لوگ اتنے خوش اور آزاد کیسے ہوتے ہیں؟" اس کا خود سے اکثر یہ سوال ہوتا۔جب وہ لوگوں کو خوش ہوتے دیکھتا تو اسے ایک جلن سے محسوس ہوتی۔ ایسے ہی خوش ،آزاد اور مطمئن چہروں میں سے ایک چہرہ مالی بابا رمضان کا ھوتا۔وہ عمر کے لحاظ سے ساٹھ برس کے قریب تھے۔ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک پدرانہ شفقت موجود ہوتی۔ اور ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے وہ بہت لمبی مسافت طے کر چکے ھیں۔ آفان کی اکثران سے سلام دعا ہو جاتی تھی۔لیکن زیادہ بات چیت کبھی نہیں ھوئی۔

"کیسے ہو بیٹا آفان ؟" آج اچانک ان کی ہی نظر پہلے اس پر پڑ گئی تھی۔لائبریری کے اکثر چکر لگانے کی وجہ سے وہ اسے جانتے تھے۔"جی میں ٹھیک ھوں۔آپ سنائیں کیسے ھیں؟" "میں بھی بلکل ٹھیک ھوں اللہ کے فضل و کرم سے۔لیکن تم ٹھیک نہیں لگتے؟" "میں تو ھمیشہ سے ہی ایسا ھوں جی۔" اس نے قدرے چڑ کر کہا۔ لوگوں سے زیادہ بات چیت کرنا اسے پسند نہ تھا۔ "او پتر تیرا یہی تو مسئلہ ھے"۔مالی بابا نے کہا۔یکدم سے اسے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے اس کے اندر جھانک لیا ھو۔  

"تو نے باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کو بند کر دیا ھے اور اپنے اندر مایوسی کے اندھیرے بسا لیئے ھیں۔۔۔۔۔او پتر جب کسی کمرے کو باہر کی ہوا نہیں لگتی نہ تو اس کے اندر جالے لگنا شروع ہو جاتے ھیں۔اور جب اس کی زیادہ دیر تک صفائی نہ کی جائے تو گردوغبار کی وجہ سے اس کی اصل شکل دیکھنا بڑا مشکل ہو جاتا ھے۔تیری ذات کے اندر بھی جالے لگ چکے ھیں۔۔۔۔۔او تو باہر والی کھڑکی کھولے گا، اپنے اندر امید کی کچھ روشنی ڈالے گا تو تبھی اپنی ذات کے جالے صاف کر سکے گا نہ،اور تبھی اپنے اوپر کام کر سکے گا ۔ کبھی اندھیرے میں بھی کام ھو تا ھے بھلا؟ ہم سمجھتے ھیں کہ خود کو اپنے اندر بند کرنے اور دنیا سے کٹ کر رہنے سے ہی خدا مل سکتا ھے -اس لیے ہم باہر کی طرف کھلنے والی ساری کھڑکیاں بند کر دیتے ھیں۔اور سمجھتے ھیں کہ اب ہمیں اپنی منزل مل جائے گی،لے دس مینوں۔۔۔۔۔کبھی راستے پر چلنے کے بغیر بھی منزل ملتی ہے؟ اور راستہ تو باہر سے اندر کو جاتاہے۔اندر سے اندر کو نہیں۔۔۔۔۔اور وہ تو ہر جگہ بیٹھا ہے یار۔۔۔۔ہر راستہ اسی کی طرف جاتا ھے۔۔۔۔۔بات خالی سمجھنے کی ھے۔اور یہ سمجھنا ہی ہمیں ہماری منزل تک لے جاتا ہے۔خود اس نے اپنی کتاب میں کتنی بار دعوت دی ہے۔ "تو کیا تم غور نہیں کرتے؟۔۔۔۔اور تم دیکھتے نہیں۔۔۔۔۔اور اس میں نشانیاں ہیں اہل عقل کے لیے" ۔اور اگر سارے راستے دنیا سے کٹ کر اندر سے اندر کی طرف جاتے تو وہ باہر دنیا کو دیکھنے کی دعوت کیوں دیتا؟

اس لیے کہ وہ اس کائنات کے ذرے ذرے میں آپ موجود ھے! یہ سارے جلوے اسی کے ہیں۔۔۔۔۔۔تو اس کائنات کو دیکھ اور اس پر غور کر۔۔۔۔۔اپنی ذات کی باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں کھول۔۔۔۔۔۔اور ہاں اس کائنات کی جو سب سے اہم چیز ھے وہ ہے انسان۔کبھی ان کو دکھ نہ دئیں۔اور ان سے محبت کر جیسا کہ ہمارے سوہنے نبی کریم نے فرمایا ھے۔"اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ایک ماں سے ستر گناہ زیادہ محبت کرتا ھے۔"  تو بس تو بھی ان سے محبت کر، ان کا خیال رکھ اور ان کے کام آ جن سے وہ محبت کرتا ھے۔منزل تک آپ ہی پہنچ جائیں گا"۔ 

"لے ہن مینوں اجازت دے۔"مالی بابا کے آخری الفاظ سن کر وہ اپنی دنیا میں واپس آیا جو کہ کافی دیر سے ان کی باتوں میں کھو گیا تھا۔ ان کی باتیں سن کر اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس کے دل ودماغ کی ساری کھڑکیاں کھل گئی ہوں اور ساری گتھیاں سلجھ گئ ہوں۔ جب وہ یہاں آیا تھا تو اس کا دل منوں بھاری اور بوجھل تھا۔لیکن جاتے ہوئے وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔


Tuesday, January 4, 2011

INNOCENCE LOST

By UX ANWAR(1990-2007)


So clearly do the crystal eyes speak,
Such depth in their mute words,
How can one but not feel touched,
By the way they see the world.


I saw the eyes of the naked child,
The truth in them, so clear and bright,
The desperation, the hopelessness, the cry,
The tears forever possessing the eye.

I saw the eyes of a beggar boy,
Begging to be held, begging to be loved,
Begging for care, begging for hope,
Begging for a world, begging for a life.

I saw the eyes of the beaten child,
Scared and stiff, ready to die,
The eyes were full of terror and sorrow,
Glowing dimmer with every tomorrow.

I saw the eyes of that innocent sister,
Who was deprived of all her joys,
Who was raped of all her happiness,
Who was now a mere case of ‘innocence lost’.

I saw the eyes of the child who worked,
Day and night in the burning, scorching heat,
Look at the eyes of that lonely, homeless boy,
Who builds the foundation of homes of love.

I saw the eyes of the illiterate child,
Who saw me going to school everyday,
Who saw me climbing each step of knowledge,
While he waited every week for his paycheck.

I saw the eyes of that utterly deprived sister,
Who was the student of the household,
Who saw her brother through the door of enlightenment,
A border she was never allowed to cross.

Look into those injured eyes for once,
Try to understand their desperate plea,
Try to look through my eyes,
In which the hopes and dreams are still free.

The mystery of those eyes shimmers and shines,
Waiting for you and me to clarify it,
The tears halt and stay,
Waiting for you and me to dry them.

The hearts are crouched in their darkness,
Waiting for you and me to light them again,
The feelings are long since desolate,
Waiting for you and me to feel them.

So let's be the raindrop in the desert,
Let's be the raft in the river,
Let's be the white doves that soar through the sky,
Let's be the answer to their cry.

Let's be the light of their eye,
Let's be the hope of their sigh,
Let's be the warmth of their hugs,
Let's be the love of their lives.