Saturday, December 31, 2011

پناہیں


 
پناہیں


سیمی شاہ کے پاس تو کوئی راستہ نہ تھا قاسم، کوئی اور پناہ گاہ ہی نہیں تھی محبت کے سوا۔ لیکن تم،تمہارے پاس تو کئی راستے ہیں قاسم،کئی پناگاہیں۔۔۔۔ تم تو اپنا پڑا ؤ کہیں بھی ڈال سکتے ہو۔۔۔۔
ہاں مریم،ہر شخص کی ذات کے اندر اور باہر کئی پناگاہیں ہوتی ہیں جن کے ذریعے وہ خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ باہر پناہ ڈھونڈتا ہے۔ جب اسے باہر پناہ نہیں ملتی تو وہ اندر راستہ ڈھونڈتا ہے۔ سیمی شاہ کے پاس جب باہر کے راستے بند ہو گئے تو وہ اپنے اندر بھی کوئی دروازہ نہیں ڈھونڈ پائی۔ شاید اسے اس بارے میں بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ بھنک تک نہیں تھی اسے اس بات کی۔اگر پتہ ہوتا اس بات کا کہ اس کی بند گلی بند نہیں تھی تو جانے کن بلندیوں پر پہنچ جاتی۔۔۔۔

پناہ کے دو درجے ہوتے ہیں پہلا جسم اور دوسرا روح۔ انسان پہلے جسم کو آسائش مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب چین پھر بھی نہیں بن پڑتا تو روح کی آسودگی کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ جب روح کو کوئی راستہ نظر نہیں آتا تو وہ کسمسانے لگتی ہے، ان دیواروں کو کھٹکھٹانے لگتی ہے؛حتیٰ کہ گھنٹیاں اس قدر شدید ہو جاتی ہیں کہ انسان کو دروازہ کھولنا ہی پڑتا ہے،جسم سے آزادی کا،روح کی معرفت کا یا پھر کوئی اور۔۔۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے پناہ گاہ اتنی ہی اہم ہوتی ہے انسان کے لیے؟
ہاں! پناہوں کے بل بوتے پر ہی تو انسان زندہ رہتا ہے مریم۔ ہم سب انسان زندہ رہنے کے لیے پناہیں ڈھونڈتے ہیں۔ معاشی پناہیں،معاشرتی پناہیں،جزباتی پناہیں؛ یوں سمجھ لو کہ سانس لینے کے بعد جو چیز انسان کے لیے اہم ہوتی ہے وہ یہ پناہ گاہ ہے۔
تم یہ سامنے لڑکی کو دیکھ رہی ہو گارڈن میں،جو پوری طرح کینوس میں رنگ بھرنے میں منہمک ہے۔ یہ آرٹ اس کی پناہ گاہ ہی تو ہے جو اس نے اپنی ذات کے لیے چنی ہے۔۔۔

ایک عام آدمی،لے مین، شادی میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ اس کے پاس زندگی گزارنے کے لیے کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا۔ وہ یونہی بس چلتا چلا جاتا ہے۔ اس کی زندگی کا محور شادی ہی ہوتا ہے۔ پہلے پڑھائی کرو،خود کو اس قابل بنا ؤ ، اچھی نوکرِی حاصل کرو اور پھر شادی کر لو۔ اور اس کے بعد ساری زندگی اس کے بعد کے اثرات سے نمٹتے ہو ئے گزار دو یعنی بچے پالو۔ انہیں بڑا کرو اور ان کی بہتر پرورش کے لیے تگ و دو کرو۔

یہ سب کیا ہے؟ پناہ گاہ ہی تو ہے۔ کبھی نہ ختم ہونے والے سائیکل میں داخل ہونا۔ جواز دینا زندگی کو۔ خود کو زندہ رہنےکے لیے محرک دینا! یہ سب ایک ذریعہ ہے وقت گزاری کا۔ یا یوں کہو کہ زندگی گزاری کا۔۔۔۔۔۔
بہت سے لوگ طوائف کے پاس اس لیے نہیں جاتے کہ انہیں جنس کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ وہ جزباتی طور پر تنہا ہوتے ہیں۔ ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہوتی لیکن ان کی انتہائی مصروف زندگی میں ان کے اپنے آپ کو بانٹنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس لیے انہیں جزباتی پناہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
کچھ لوگوں کے لیے وقت گزاری اہم ہوتی ہے۔ کچھ دن پہلے میں قلفی بیچنے والے ایک بوڑھے بابا جی سے ملا۔ وہ انتہائی ضعیف تھے لیکن پھر بھی قلفیاں بیچا کرتے تھے۔ میں نے کہا بابا جی آپ کی کوئی اولاد نہیں ہے؟آپ کیوں یہ تکلیف کرتے ہیں۔ تو کہنے لگے میرے چار بیٹے ہیں۔ ماشااللہ چاروں کماتے ہیں۔اپنا مکان ہے۔ تو میں نے کہا پھر آپ یہ محنت کیوں کرتے ہیں جبکہ آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے اس کی؟ وہ کہنے لگے وقت نہیں گزرتا گھر میں۔دل نہیں لگتا۔ اور جب  مجھے زندگی رکی ہوئی محسوس ہوتی ہے تو پھر میں قلفیاں بیچنے لگتا ہوں۔
تو ان بابا جی نے پناہ گاہ کے طور پر وہ راستہ اپنایا تھا
کل میں ٹی وی پر ایک ضعیف شخص کو دیکھ رہا تھا۔ جو کہ کئ سال سے کورٹ کچہریوں کے چکر لگا رہا تھا۔ جائیداد کا تنازعہ تھا۔ وہ شخص روز صبح قصور سے آتا اور شام تک بیٹھا رہتا پیشی اور فیصلے کے انتظار میں۔ کل جب آٹھ سال بعد مقدمے کا فیصلہ ہوا اور وہ بھی اس کے حق میں تو وہ خوش نہیں تھا۔ پتا ہے کیوں؟ اس کا کہنا تھا کہ وہ روز صبح آتا اور شام کو گھر واپس جاتا تو سارا وقت اسی میں گزر جاتا اور دل بہل جاتا تھا۔ اب اس کے پاس کوئی مصروفیت نہیں ہے۔ اب وہ اپنا وقت کیسے گزارے گا! سو یہ بھی پناہ گاہ تھی۔
  تم دیکھو محرک کتنا اہم ہوتا ہے۔ ہم جواز کے بل بوتے پر آگے بڑھتے ہیں۔ پناہیں ہمارا سہارا ہوتی ہیں۔ اور یہ پناہیں بھی دو طرح کی ہوتی ہیں۔ اہک اندرونی اور ایک بیرونی۔ یہ جو سیمی شاہ اور اس آرٹسٹ لڑکی کی پناہ گاہ تھی نہ ، یہ اندرونی تھی اور ان بوڑھے بابا جی اور اس ضعیف شخص کی بیرونی۔ جب روح تڑپتی ہے تو اندرونی پناہ گاہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور جب جسم بے چین ہوتا ہے تو بیرونی پناہ گاہ چاہیے ہوتی ہے۔۔۔۔ہر ایک کی اپنی اپنی قسمت ہوتی ہے یا پھر ضرورت۔۔۔۔کچھ لوگ اندر سے باہر کی طرف سفر کرتے ہیں اور کچھ باہر سے اندر کی طرف۔۔۔۔
شراب اور نشہ۔۔۔ یہ بھی تو پناہ گاہیں ہی ہیں؛ عارضی پناہ گاہیں؛ جسم سی دماغ کا رابطہ توڑنے کے لیے؛ خود کو تھوڑی دیر کے لیے آزاد کرنے کےلیے؛ان سوچ،عقل اور اصولوں کے دائرے سے نکلنے کے لیے۔۔۔
کچھ لوگ پیسے، سٹیٹس میں بھی تو پناہ ڈھونڈتے ہیں قاسم۔ کیا انہیں واقعی اس میں پناہ مل جاتی ہے؟
ہاہا،ہنستے ہوئے، پناہ تو کسی بھی چیز میں مل جاتی ہے مریم۔ لیکن شاید تم یہاں پناہ اور سکون کو گڈمڈ کر رہی ہو۔ دونوں میں بہت فرق ہے مریم بی بی۔ لازم نہیں کہ ہر وہ شے جو ہمیں پناہ دے ہماری روح کو اطمینان بھی دے اور سکون بھی مہیا کرے۔ پیسا بنانے کی مشین بننے سے وقت تو گزارا جا سکتا ہے، زندگی کو جواز تو دیا جا سکتا ہے، معاشرے میں مقام تو حاصل کیا جا سکتا ہے، اس سے ہم اپنی معاشرتی زندگی کے ٹمٹاتے چراغ کی لو کو تو روشنی دے سکتے ہیں لیکن سکون کی میں گارنٹی نہیں دے سکتا۔
تم دونوں یہاں بیٹھے ہو۔ سر ناصر کب سے تمہارا انتظار کر رہے۔ کیا کلاس لینے کا ارادہ نہیں ہے؟ ایک لڑکی نے پیچھے سے آواز لگائی۔
ارے۔۔۔وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ چلو۔۔۔۔اور وہ تینوں کلاس روم کی جانب چل پڑے۔


  

No comments:

Post a Comment