Wednesday, January 26, 2011

ڈائری سے ایک ورق


انسان۔۔۔۔مقام۔۔۔۔مقصد۔۔۔انا۔۔۔۔کوشش۔۔۔۔جذبات۔۔۔۔سب آپس میں جڑے ھوئے ھیں۔ انسان اور مقصد کی کھینچاتانی تو اس کی پیداٴش کے بعد ہی سے شروع ہوجاتی کبھی مقصد انسان کو اپنی طرف راغب کرتا ہےاور کبھی انسان اس کی طرف چلا جاتا ہے۔بس یوں سمجھ لیجیے کہ کائنات کا ایک لاذمی عمل شروع ہو جاتا ہے۔کیونکہ یہ سب انفرادی مقاصد مل کر کائنات کے اجتماعی مقصدکی طرف عمل پیرا ہوتے ہیں۔لہٰذا اگر کوئی انفرادی شخص اپنا کام ٹھیک سے نہیں کریگا تو یہ بلاواسطہ کائنات کے مفصدپر اثراندازہوگا۔یعنی پھر قدرت کائنات کے اجتماعی مقصد کے حصول کے لئےانفرادی طور پر لوگوں سے کام لازمی کروائے گی۔مطلب ایک شخص کو جس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہےوہ لازمی طور پر کر کے ہی اس دنیا سے رخصت ہوگا۔ایسا نہیں ہوگا کہ ایک شخصکو اللہ تعالٰی نے کسی کام کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ اسے کئے بغیر رخصت ھو جائے۔۔۔۔قدرت کے اپنے قانون ہیں جو اس کائنات پر عمل پیرا ہیں اور ہر کوئی اپنا کام کر رہا ھے۔اگر ایسا سوچا جائے کہ قدرت نے مجھے جس کام کے لئے پیدا کیاہے وہ مجھ سے وہ کام لے کر ہی رہے گاتو سارے مسئلے ہی حل ہوجاتے ہیں۔نہ کوئی اینگزائٹی نہ ڈپریشن اور نہ کچھ اور اس قسم کا مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ آخر انا کیا چیز ہے؟شاید انسانوں کاخودکاپیداکردہ دل، ذہن اور سوچ کے گرد ایک حصار۔۔۔۔۔۔جس سے وہ باہر نکل نہیں سکتے۔۔۔۔یا پھر وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس حصارکےباہر قدم رکھنے سےوہ جل جائیں گے۔انسان اس حصار کے اندر ایک خاص قسم کی سوچ کے ساتھ رہتا ہےاوراسے لگتاھے کہ یہی ٹھیک ھے۔اور جو اس دائرے سے باہر ھے وہ سب غلط ھے۔۔۔۔۔خود کی بنائی ہوئی روایتیں،خود کے بنائے ھوئے قائدےاور اصول۔۔۔۔یعنی خودکی بنائی ہوئی زنجیریں جس میں وہ بڑےشوق سے رہنا پسند کرتا ھے!اور ان زنجیروں کے باہر وہ خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ھے! دوسرے لفظوں میں یہ ایک طرح کاپاگل پن بھی کہا جا سکتا ہے!درحقیقت انسان کو لگتاہے کہ وہ اگر اس حصار کے اندر رہے گا تو بڑے اعلٰی مقام پر فائز رہے گا۔اور اگر اس سے باہر آئیگا تو اپنے مقام اور رتبے سے گر جائے گا۔یعنی یہ اعلٰی مقام سوچ بھی انا پرستی میں اضافے کا موجب ھے۔جاہل انسان پہلے تو حدبندیاں کرتا ہے اور پھر اسے توڑنے کی کوشش کرتا ھے۔ کہیں ٹک کر سکون سے ایک جگہ بیٹھ نھیں سکتا۔اور بیٹھے بھی کیسے تغیر تو انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا ھے۔اب اگر وہ سکوت کی آرزو بھی کرے تو اسے خالق کائنات سے یہ جواب ملتا ھے کہ اے انسان کیا تو میرے برابر ہو نا چاہتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔سو مجبوری ھے انسان کو تو ایسے ہی رہنا پڑیگا۔اب چاہے جیسی مرضی زندگی گزارے۔یہ تو انسان پر منحصر ہے کہ وہ کیا پسند کرتا ہے اپنے لئے۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment