Saturday, September 24, 2011

سپردگی



کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ اندھیرے کسی دن مجھے اپنے ساتھ بہا لے جائیں گے۔ میں باہر کی روشنیوں سے بچتا پھرتا ہوں اور اندر مجھے یہ اندھیرے سانس نہیں لینے دیتے۔ تم،تم بھی تو اسی دنیا میں رہتی ہو۔ تم کیسے رہ لیتی ہو بھلا؟ کیا تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا؟ پہلے بہت فرق پڑتا تھا صاحب جی جب میں نے نیا نیا گھروں میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ہم چار بہنیں تھیں۔ میری ماں کبھی نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹیاں بھی اس کی طرح لوگوں کے گھروں میں کام کریں۔ وہ تو چاہتی تھی کہ ہم سب کی اچھے گھروں میں شادیاں ہو جائیں۔ پر آہستہ آہستہ وہ زیادہ کام کرنے کی وجہ سے بیمار پڑنے لگی اور گھر چھوٹنے لگے۔ خرچہ پورا نہیں ہوتا تھا۔ جب دال روٹی کے بھی لالے پڑنے لگے تو مجھے بھی ساتھ میں کام کرنا پڑا۔ اس پاپی پیٹ کی خاطر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔

بہت دنیا دیکھی ھے جی میں نے۔ یہ بڑے گھروں میں بسنے والے اپنے مکانوں میں سجاوٹ کے لیے لاکھوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں۔ رات کے وقت روشنیوں کا وہ انتظام ہوتا ہے کہ ان کے گھر رات کے وقت دن کی روشنی سے زیادہ چمکنے لگتے ہیں۔ پر صاحب جی ان کے دلوں میں اندھیرے ہی رہتے ہیں۔ صفائی بہت ہوتی ہے پر دل کی نہیں۔  سجاوٹ ہوتی ہے پر ذات کھنڈر رہتی ہے۔ کپڑوں کا بہت خیال رکھا جاتا ہے اور اس میں خود کو سب سے تہذیب یافتہ دکھایا جاتا ہے۔ لیکن ان کی درندگی اس بیچاری غریب سے چھپ نہیں سکتی جو بیچاری دو وقت کی روٹی کی خاطر ان کے گھر جاتی ہے اور ان کی ہوس خوردہ نگاہوں سے خود کو بچا نہیں سکتی اور اس کا ثابت گھر پہنچنا محال ہوتا ہے۔ ایک عورت کے لیے یہاں سب درندے ہیں اور ایک غریب کے لیے اس کا استحصال کرنے والے۔ یہاں سب کے اپنے اپنے گھاؤ ہیں جی۔۔۔۔۔۔

میرا اور آپ کا دکھ اس لحاظ سے ایک جیسا ہے کہ ہم دونوں گھاؤ زدہ ہیں۔۔۔۔۔اور پھر چوٹ اندر کی ہو یا باہر کی،چوٹ تو چوٹ ہوتی ہے نہ۔ میں باہر کی دنیا سے تلملا اٹھتی ہوں اور آپ اندر سے۔۔۔۔۔

کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے نجمہ، کہ جیسے میری طرف کئی لمبے لمبے اجسام کے سائے چلے آرہے ہوں اور وہ زبردستی مجھےاپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ مجھے اندھے سمندر میں دکھا دے دیں گے۔ کیا یہ صرف دماغ کا دھوکہ تو نہیں؟ کیا میں تمہیں زہنی بیمار لگتا ہوں؟ کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا کہ یہ تہزیب یافتہ روشنیاں صرف غریبوں کو گھائل کرنے کے لیے بنائی گئ ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب اندھے،بہرے،بے حس ہو چکے۔ میں،میں کچھ کرتا کیوں نہیں؟ آخر سکون کہاں ہے؟روشنی کہاں ہے؟ مجھے ڈر لگتا ہے خود سے کہ کہیں میری ذات ہی مجھ پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ میں خوفزدہ ہوں اس سے کہ کہیں میں بھی مسلسل اندھیرے میں رہنے کی وجہ سے اپنی بینائی نہ کھو بیٹھوں،کہیں میں بھی باقی سب کی طرح اندھا نہ ہو جاؤں۔۔۔۔۔۔۔

دیکھو صاحب جی زیادہ نہ سوچا کرو،اور پھر سوکھی سوچ تو انسان کو پریشانیوں میں ہی مبتلا کرتی ہے۔ بندہ تھوڑا تھوڑا اپنی استطاعت کے مطابق کام کرتا رہے تو ٹھیک رہتا ہے۔ کام نہ کرے تو بھی بے ایمانی ہوئی خدا کی دی ہو ئی جان میں، اور زیادہ کرنے کی سوچے تو بھی پورا نہیں پڑتا۔ میں بھی بڑی پریشان رہتی تھی،بات بات پر کڑھتی تھی۔ مجھے بھی دنیا بڑی کھلتی تھی۔ میں بھی اس زندگی سے بڑی تنگ تھی۔ پھر ایک دن مجھ پر بھید کھلا۔۔۔۔۔۔مسئلہ یہ تھا کہ میں نے خود کو پریشانیوں کے سپرد کیا ہوا تھا،اس دنیا کے سپرد،اس سوچ کے سپرد جو مجھے پریشان کرتی تھی۔ پھر میں نے خود کو اپنے اور اس دنیا کے بنانے والے کے سپرد کر دیا۔ اپنی پریشانیوں کو،اپنی سوچ کو،اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر دیا اور میرے سارے مسئلے حل ہو گئے۔ آپ بھی خود کو اپنے مالک کے سپرد کر دو تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔










Sunday, September 18, 2011

راستہ



دیکھو مائرہ سمجھنے کی کوشش کرو زندگی کی یہی حقیقت ھے۔ ہر شے چاہے وہ کتنی ھی دلفریب،پرکشش اور چارمنگ کیوں نہ ھو ایک دن اس کی چمک ماند پڑ جاتی ھے اور وہ پھیکی لگنے لگتی ھے۔ محبت کی خواہش بھی ھمیشہ نہیں رہنے والی۔۔۔۔

لیکن اس محبت کا کیا فراز؟ اس رشتے کا کیا؟ تم سب کچھ اپنی اس فلاسفی کی  نذر کر دینا چاہتے ھو؟

یہ کوئی فلاسفی نہیں ہے مائرہ۔ بلکہ ایک حقیقت ھے۔وہ حقیقت جس کا ادراک مجھے پہلے ھو گیا ھے اورلوگوں کو بعد میں ہوتا ہے۔ تمہیں بھی اس بات کا ادراک کرنا ہوگا۔ دیکھو ہر انسان میں بیک وقت کئی راستے  ھوتے ہیں۔ لیکن اسے اس بات کا اندازہ نہیں ہوپاتا کیونکہ وہ ایک وقت میں صرف ایک راستے پر فوکس کیے ہوتا ہے اور پھر جب ا سے انر سگنل ملتا ہے کہ بس بہت ہو گیا اور اب اس راستے پر چلا جائے تو وہ پھر سرپٹ دوڑتا ھے،اس اندرونی چابک کے زیر اثر،اس نئے راستے کے پیچھے۔۔۔۔اس چابک کی ضربیں اس قدر شدید ہوتی ہیں کہ اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا سوائے اپنے اس راستے کے۔۔۔۔۔۔۔

میرے اندر بھی کئی راستے ہیں مائرہ،کئی گھمن گھیریاں ہیں،کئی بھنور ہیں ۔ اور میں جانتا ہوں میں ایک راستہ زیادہ دیر تک اختیار نہیں کرسکتا۔یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ مجھے ان کئی راستوں پر چلتے ہوئے خود تک پہنچنا ہے۔ اور پھر محبت تو ایک خواہش، ایک جذبے کا نام ہے۔ کسی خواہش کو ساتھ رکھ کے تو انسان خوش رہ سکتا ہے۔لیکن اسی خواہش کے حصول کے بعد اس کا قیدی بن کر نہیں۔


میں محبت کا قیدی نہیں بن سکتا۔ مجھے تم سے محبت ہے۔ ھمیشہ رہے گی۔ لیکن میں اس میں قید نہیں ھو سکتا۔یہ میری فطرت میں نہیں ہے۔۔۔۔۔

یہ تغیر پیشہ انسان جب کسی خواہش کا اظہار کرتا ھے تو سمجھتا ہے کہ بس کسی طرح اب یہ چیزحاصل ہو جائے تو وہ ہمیشہ خوش رہے گا۔لیکن اس خواہش کے حصول کے بعد آہستہ آہستہ وہ کشش اور رغبت ماند پڑ جاتی ہے۔ اور پھر وہ کسی نئی خواہش کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ھے۔ کسی شے کا حصول انسان کو مستقل طورپرخوش نہیں رکھ سکتا۔۔۔۔۔۔محبت بھی انسان کو مستقل طور پر خوش نہیں رکھ سکتی۔ جب ایک خواہش پوری ہو جائے تو دوسری ضرورتیں سر پکڑنے لگتی ہیں۔ یہ کوئی ڈیسٹینیشن پوائنٹ نہیں ہے کہ جس پر آکر رکا جائے۔کسی شخص کو حاصل کر لینے کا مطلب محبت کا ابدی حصول نہیں ہوتا۔ دیکھو، ہر ایک کی ذات کے اندر کئی راستے ہوتے ہیں۔جو کہ اسے قدرت کی طرف سے ملے ہوتے ہیں چلنے کے لیے۔۔۔۔وہ چاہے بھی تو اپنے اندر کی آوازوں کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔۔۔۔اور مجھے بھی اسی راستے پر چلنا ہوگا۔۔۔۔۔۔            

اچھا چلتا ہوں اب۔۔۔۔اپنا خیال رکھنا۔اور چاہو تو مجھے خود غرض کہ لینا یا چاہو تو کچھ اور،چاہو تو اس رشتے کو ماضی کی کتاب کا ایک ورق سمجھ کر بند کر دینا یا چاہو تو حال کی ایک کڑی سمجھ کر زندہ رکھنا۔۔۔۔۔