Friday, January 13, 2012

قید اور آزادی



چاہنے کی قید، چھوٹی چھوٹی خواہشات کے پیچھے بھاگنے کی قید، تغیر سے پیدا ہونے والی ہر نئی خواہش اور جستجو کی قید، چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش کی قید ۔ دراصل اانسان کی تغیر پسند فطرت سے خواہش کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ وہ اس تغیر کے زیر اثر ہر لمحے بدلاؤ چاہتا ہے۔ ہر لمحے ایک نئی خواہش امڈتی ہے اور ایک پرانی فوت ہوتی ہے۔ اور اس طرح وہ اس میں قید ہو کر رہ جاتا ہے۔

دراصل یہ قید اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان خواہش کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ رزلٹ میری مرضی کا آئے۔ چیزیں میری مرضی کے مطابق ہوں۔ اور اس مقصد کے لیے وہ اپنی پوری کوشش لگا دیتا ہے۔ اور یہ میری مرضی کے مطابق چاہنے کا ہونا درحقیقت قید ہے۔ جب انسان چیزوں سے بلاواسطہ منسلک ہو جائے۔ جب اس کی ساری توقعات چیزوں سے بلاواسطہ بندھ جائیں،تو پھر انسان قیدی ہو کر رہ جاتا ہے ان خواہشات کا۔ اور جیسے یہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تاریں حرکت کرتی ہیں یہ بلا واسطہ بندھا انسان بھی ساتھ ساتھ ہلتا ہے۔ اب اگر انسان ان چھوٹی چھوٹی تاروں سے بندھنے کی بجائے اگر بلاواسطہ اس بڑی رسی کے ساتھ تعلق قائم کرے تو پھر وہ ان ساری چھوٹی چھوٹی قیود سے آزاد ہو جاتا ہے۔ پھر اس کی ہر توقع اس بڑی رسی کے ساتھ بندھ جاتی ہے۔ پھر اس کا ہر کام اس بڑی رسی کے تحت ہوتا ہے۔ پھر اس کا ہر معاملہ اس بڑی رسی کے ساتھ ہوتا ہے۔

اور پھر جب وہ ان چھوٹی چھوٹی قیود سے آزاد ہو جاتا ہے تو اس کی اصل پرواز شروع ہوتی ہے۔ اور پھر سب چاہنا اور نہ چاہنا اس بڑی رسی کے تحت ہو جاتا ہے۔ اسی چیز کو رب تعا لیٰ نے یوں فرمایا ہے۔

 "و تعصمو بحبل اللہ جمیعاً ترجمہ:اور تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو"

اور پھر نہ وہ چھوٹی چھوٹی خواہشات میں الجھتا ہے۔ اور نہ اسے کسی چیز کا خوف ہوتا ہے اور نہ غم۔ کیونکہ خوف اور غم پیدا ہی اس وقت ہوتے ہیں جب انسان چیزوں کے ساتھ بلاواسطہ طور پر بندھ جائے۔ اور چیزیں اس کی خواہش کے مطابق نہ ہوں۔

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں  " اور اللہ کے بندوں کو نہ خوف ہوتا ہے نہ غم" 

کیونکہ وہ اپنی خواہشات کے ساتھ بندھے نہیں ہوتے، چیزوں سے انہیں توقعات نہیں ہوتیں۔ ان کی ہر توقع اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہی ان کی رضا ہوتی ہے۔ وہ چیزیں برخلاف عادت ہونے پر واویلہ نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے اور اس نے کچھ بہتر ہی سوچا ہوگا ان کے لیے۔ اسی لیے قلندر بابا اولیا رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

 " انبیا کی طرز فکر اختیار کرو اور انبیا کی طرز فکر یہ ہے کہ ہمارا کسی بھی چیز کے ساتھ بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ بلواسطہ اللہ ہے۔"

اس طرح کسی بھی چیز کو سوچنے سے پہلے ہمارا خیال اس کے خالق اللہ تعالیٰ کی طرف جائیگا۔ اور ہم کسی بھی چیز کو سوچنے سے پہلے اس کے خالق کو سوچیں گے۔ لہٰذا ہمارے تمام معاملات چیزوں سے  منسلک ہونے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑے ہوں گے۔

 

      

No comments:

Post a Comment